مِّنْہُ، إِذًا ہِيَ نَقْلٌ غَیْرُ مُصَدَّقٍ عَنْ قَائِلٍ غَیْرِ مَعْصُومٍ، وَإِنِ اعْتَصَمُوا بِشَيْئٍ مِّمَّا ثَبَتَ عَنِ الرَّسُولِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَرَّفُوا الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ، وَتَمَسَّکُوا بِمُتَشَابِہِہٖ، وَتَرَکُوا مُحْکَمَہٗ کَمَا یَفْعَلُ النَّصَارٰی ۔ ’’نصرانی مشرکوں سے مشابہت رکھنے والے یہ گمراہ یا تو من گھڑت وضعیف روایات پر اعتماد کرتے ہیں یا ایسے اقوال و مرویات پر جوحجت نہیں ہوتے۔ یہ اقوال یا تو قائل کی طرف جھوٹے منسوب ہوتے ہیں یا قائل کا علمی تسامح ہوتے ہیں ۔ یوں یہ اقوال غیرمعصوم اشخاص کی غیر مصدقہ مرویات پر مبنی ہوتے ہیں ۔ اگر کبھی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت شدہ احادیث سے دلیل لیتے ہیں تو ان کے معانی و مفاہیم میں تحریف کے مرتکب ہوتے ہیں اور محکم و صریح کو چھوڑ کر نصاریٰ کی طرح متشابہ الفاظ سے استدلال و استنباط کرتے ہیں ۔‘‘ (تلخیص کتاب الاستِغاثۃ، ص 352) نیز فرماتے ہیں : لَمْ یَقُلْ أَحَدٌ مِّنَ الْـأَئِمَّۃِ : إِنَّہٗ یَجُوزُ أَنْ یُّجْعَلَ الشَّيْئَ وَاجِبًا أَوْ مُسْتَحَبًّا بِحَدِیثٍ ضَعِیفٍ، وَمَنْ قَالَ ھٰذَا، فَقَدْ خَالَفَ الْإِجْمَاعَ ۔ ’’ائمہ دین میں سے کسی نے بھی شریعت کے کسی واجب و مستحب امر کو ضعیف حدیث سے ثابت کرنا جائز قرار نہیں دیا۔ جو ایسی بات کرتا ہے، |