معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول ہی راجح ہے،یہی بات درست ہے کہ یہ ’’مجہول‘‘ ہے، لہٰذا حافظ ذہبی رحمہ اللہ( 307/2) کا اسے ’’ثقہ‘‘ قرار دینا بے دلیل اور مرجوح ہے۔ 3.ابوالاسود طفاوی کی توثیق کسی مجہول ہی کی طرف سے ہے۔ جو خود مجہول یا ضعیف ہو ،اس کی توثیق کا کیا اعتبار؟ طفاوی کا امام سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے سماع و لقا بھی درکار ہے۔ سیدنا آدم علیہ السلام کے بارے میں اس طرح کا بے ثبوت قول حجت نہیں ہو سکتا، یہ قرآنِ مجید اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ثابت شدہ تفسیر کے بھی خلاف ہے۔ دلیل نمبر 13 حفص بن سائب حنظلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے والد کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دُعا سکھائی: اَللّٰھُمّ! بِحَقِّ آدَمَ وَذُرِّیَّتِہٖ مِنَ الْـأَنْبِیَائِ، أَنْ تَشْفِيَ فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ، وَفُلَانَۃَ بِنْتَ فُلَانٍ ۔ ’’یا اللہ!آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد میں آنے والے انبیائے کرام کے طفیل فلاں بن فلاں اور فلانہ بنت فلاں کو شفا دے دے۔۔۔‘‘ (أخرجہ المُستَغفري کما في الأجوبۃ المَرضِیّۃ للسّخاوي : 1/316) تبصرہ : مستغفری کی کتاب مفقود ہے۔ اس روایت کی سند کا علم نہیں ہوسکا۔ بے سند |