Maktaba Wahhabi

48 - 219
ثانیاً : اگر کبھی بشری تقاضوں کے تحت کوئی کبیرہ گناہ سرزد ہوجائے تو احساس ہوتے ہی فوراً اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ استغفار کی جائے اور آئندہ اس گناہ کے قریب نہ جانے کا پختہ عزم کیا جائے۔ ثالثاً : اگر اس گناہ میں کسی آدمی کی حق تلفی ہوئی ہو تو اس کی تلافی کی جائے یا اس سے معافی مانگی جائے اگر کسی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو)مثلًا وہ شخص فوت ہو چکا ہو)تو اس کے حق میں بکثرت استغفار کیا جائے۔ رابعاً: صغیرہ گناہوں کو معاف کرنے والے نیک اعمال مثلًا نفلی نماز ،نفلی روزہ،نفلی صدقہ و خیرات وغیرہ بکثرت کئے جائیں لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ کسی بھی صغیرہ گناہ پر عمداً مداومت اختیار کرنا صغیرہ گناہ کو کبیرہ بنا دیتا ہے جس کے لئے توبہ کرنی ضروری ہے ۔نیک اعمال کے ساتھ از خود معاف ہونے والے صغیرہ گناہ صرف وہی ہیں جو لا شعوری طور پر انسان سے سرزد ہوتے ہیں۔ مذکورہ امور کی پابندی کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے قوی امید رکھنی چاہئے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے ضرور جہنم کے عذاب سے بچائے گا اور اپنی نعمتوں بھری جنت میں داخل فرمائے گا۔وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْز حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ وَ سُنَّۃُ نَبِیِّہٖ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات مبارک سے قبل اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے دین اسلام کی ہر لحاظ سے تکمیل فرمادی ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ﴾’’یعنی آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا ہے۔‘‘ (سورہ مائدہ،آیت نمبر3) خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے(( لَقَدْجِئْتُکُمْ بِھَا بَیْضَائَ نَقِیَّۃً)) ’’ میں ایک واضح اور روشن شریعت لے کر تمہارے پاس آیا ہوں۔‘‘(مسند احمد)ایک دوسری جگہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ ((لَیْلُھَا کَنَھَارِھَا)) ’’ میری شریعت کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے۔‘‘( ابن ابی عاصم)گویا اس دین میں اب نہ تو کسی اضافہ کی ضرورت ہے اور نہ ہی کوئی بات مبہم اور غیرواضح چھوڑی گئی ہے۔ عقائد کا معاملہ ہو یا عبادات کا،حقوق کا معاملہ ہو یا معاشرت کا ،ترغیب کا معاملہ ہو یا ترہیب کا، سب چیزوں کے بارے میں جتنا کچھ بتلانا مقصود تھا وہ سب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلا دیا ہے جنت کی ترغیب اور جہنم سے ترہیب کے لئے جن جن باتوں کی ضرورت تھی وہ ساری کی ساری اللہ تعالیٰ نے
Flag Counter