ہوگئے۔‘‘ داروغہ جہنم : ’’لعنت ہے آخرت کا انکار کرنے والوں پر اور اسلام کا راستہ روکنے والوں پر۔‘‘ ﴿ وَ نَادٰی اَصْحٰبُ الَجَنَّۃِ اَصْحٰبَ النَّارِ اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَھَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا قَالُوْا نَعَمْ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَیْنَھُمْ اَنْ لَّعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ،الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ یَبْغُوْنَھَا عِوَجًا وَ ھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ کٰفِرُوْنَ،﴾(45۔44:7) ’’(جنت میں داخل ہونے کے بعد)جنتی،جہنمیوں کو پکار کر کہیں گے ہمارے رب نے ہم سے جو وعدے کئے تھے وہ سارے کے سارے سچ ثابت ہوئے کیا تم نے بھی ان وعدوں کو پالیا جو تمہارے رب نے تمہارے ساتھ کئے تھے۔ وہ جواب دیں گے ’’ہاں!‘‘تب دونوں گروہوں کے درمیان ایک پکارنے والا (فرشتہ)پکارے گا اللہ کی لعنت ان ظالموں پر جو لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے تھے،اس (رستے) کو ٹیڑھا کرنا چاہتے تھے اور آخرت کا انکار کرتے تھے۔‘‘(سورہ اعراف،آیت 45۔44) مسئلہ 197: دنیا میں ایک ساتھ زندگی بسر کرنے والے منافقوں اور مومنوں کے درمیان درج ذیل عبرت ناک مکالمہ ہوگا۔ منافق : ’’اس اندھیرے میں ذرا ہمیں بھی اپنے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلینے دو۔‘‘ مومن : ’’یہ نور حاصل کرنے کے لئے دوبارہ دنیا میں جاؤ۔‘‘ (اگر جاسکتے ہو) اس انکار پر منافقوں کی دوبارہ عاجزانہ درخواست! منافق : ’’کیا دنیا میں ہم تمہارے ساتھ نہ رہتے تھے؟‘‘ مومن : ’’تم ہمارے ساتھ تو رہتے تھے لیکن اللہ اور اس کے رسول |