Maktaba Wahhabi

309 - 336
اس کی بارگاہ تک رسائی چاہتے ہیں یعنی تسبیحات کے ذریعے۔ چنانچہ اللہ کو یہ لوگ اس کے ناموں سے پکارتے ہیں۔ {وَلِلّٰہِ الْاَسْمَائُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا} ’’اور اللہ کے بہترین نام ہیں پس اس کو ان ہی ناموں سے پکارو۔‘‘ ’’اور تسبیحات (جاپ) کے ذریعے ایک خاص قسم کا جوگ کیا جاتا ہے جسے منتر یا جوگ کہتے ہیں۔ یہ ہندی(سنسکرت) زبان کے لفظ منترام سے بنا ہے۔ جس کے معنی تسبیح یا جاپ کے ہیں اور سنسکرت کی ایک خاص تسبیح (جاپ) یہ ہے کہ جوگی خشوع کے ساتھ ہزاروں بار ’’ہری رام‘‘ کے الفاظ تلاوت کرتا ہے ۔ یہ الفاظ ہمارے ہیں،’’ رحمن و رحیم‘‘ کے بالمقابل ہیں اور سنسکرت زبان میں اللہ کا نام ہے اور جوگی اپنی گردن میں ہزار دانے کی ایک لمبی تسبیح لٹکائے رہتا ہے۔‘‘ اس کے بعد ڈاکٹر مصطفی محمود تصوف کے ذریعے اور اہل تصوف کے فہم اسلام کی تعریف کرتے ہوئے مزید آگے بڑھتے ہیں ، اور لکھتے ہیں: ’’تصوف درحقیقت بلند مدارک کے ذریعے ادراک کا نام ہے، اور صوفی عارف ہوتا ہے۔‘‘ (ص:۱۰۳) پھر ڈاکٹر موصوف قرآنی آیات کو صو فیوں کی باطنی تفسیر کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے ان کے پیچھے پیچھے دوڑتے ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں: ’’ داؤد علیہ السلام کے بعض واقعات میں ہے کہ انہوں نے کہا: اے میرے پروردگار! میں تجھے کہاں پاؤں؟ اس نے کہا اپنے آپ کو چھوڑ، اور آ… اپنے آپ سے غائب ہو جا، مجھے پا جائے گا۔‘‘ اس سلسلے میں بعض اہل تصو ف نے قرآن میں موسیٰ علیہ السلام سے اللہ کی گفتگو کی تفسیر یوں کی ہے کہ ’’{فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ اِنَّکَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی} ’’تم اپنے جوتے اُتار دو، تم وادی مقدس طوی میں ہو۔‘‘ میں نعلین (دونوں جوتوں)سے مراد نفس اور جسم ہے، یا نفس اور لذاتِ جسم ہیں، لہٰذا اللہ سے ملاقات نہیں ہو سکتی جب تک کہ انسان اپنے دونوں جوتے یعنی
Flag Counter