نفس اور جسم کو موت یا زہد کے ذریعے سے اُتار نہ دے۔‘‘ (ص: ۱۰۴)
پھر ڈاکٹر صاحب مزید آگے بڑھتے ہیں اورفرماتے ہیں:
’’صوفی سوال نہیں کرتا… وہ بیمار ہوتا ہے تو اللہ سے شفا نہیں مانگتا۔ بلکہ ادب سے کہتا ہے : میں اللہ کے ارادہ کے بالمقابل اپنے لیے کوئی ارادہ کیونکر بنا سکتا ہوں کہ اس سے ایسی بات کا سوال کروں جسے اس نے نہیں کیا۔‘‘ (ص:۱۰۵)
پھر اللہ تعالیٰ کے قول {وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ} کی تفسیر یہ کی ہے کہ ’’ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں۔‘‘
پھر اس صوفیانہ فصل کے خاتمہ پر لکھتے ہیں:
’’یہی لوگ اہل اسرار، اصحاب قرب و شہود اور برحق اولیاء صالحین ہیں۔‘‘
(ص:۱۰۹)
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس صوفیائی منہج نے جو ڈاکٹر موصوف کا اپنا منتخب کردہ ہے ، ان پر کیا اثر ڈالتا ہے اور اس فکر کا نتیجہ ڈاکٹر موصوف کے ہاں کیا ہے؟
ڈاکٹر مصطفی محمود نے قرآن مجید کی تاویل و تفسیر کا بیڑہ اُٹھایا تو لوگوں کے سامنے کیا چیز لے کر نمودار ہوئے؟ اور رب العالمین سبحانہ و تعالیٰ کی کتاب کا وہ کیا عصری فہم ہے جو انہوں نے پیش کیا؟ اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب موصوف کے فہم کی رسائی کے چند نمو نے پیش خدمت ہیں:
الف:…ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے حسب ارشاد اس درخت کو پہچاننے کی کوشش کی جس سے کھا کر آدم علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کا اجتہاد خود ان کے حسب ارشاد یہ ہے:
’’جنسی اختلاط ہی وہ ممنوعہ درخت تھا جس سے زندگی نے زندگی کو کھا لیا اور وہ عدم کے گھڑے میں جا گری۔‘‘
’’اور شیطان جانتا تھا کہ درخت موت کے آغاز اور دائمی جنت سے نکالے
|