الف:…ڈاکٹر محمود مصطفی نے ’’ اسماء اللہ ‘‘ کے عنوان سے پوری ایک فصل قلم بند کی ہے جس میں رب اور الٰہ کے معانی کی صحیح اور سالم معرفت وہی قرار دی ہے جسے اہل تصوف نے دریافت کیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
’’اہل تصوف کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حد درجہ ظاہر ہونے کے بعد ہم سے پوشیدہ ہے۔‘‘ (ص: ۹۹)
اس کے بعد موصوف صوفیانہ فکر کی مدح سرائی میں یوں رواں دواں ہیں:
’’صوفیا اللہ کا قرب محبت کی وجہ سے چاہتے ہیں جہنم کے خوف یا جنت کی طلب کی وجہ سے نہیں۔ اور وہ کہتے ہیں کہ ہم کائنات سے اس کے بنانے والے کی طرف مسلسل ہجرت میں ہیں۔‘‘ (ص: ۱۰۰)
پھر لکھتے ہیں:
’’اہل تصوف کے مختلف اطوار و حالات ہوتے ہیں اور وہ بڑی دلچسپ رائے کے حامل ہوتے ہیں جو اپنی خاص گہرائی اور معنی رکھتی ہیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ معصیت کبھی کبھی طاعت سے افضل ہوتی ہے کیونکہ بعض معصیتیں اللہ کے خوف اور ذل و انکسار کی طرف لے جاتی ہیں جب کہ بعض طاقتیں تکبر اور فریب نفس میں مبتلا کر دیتی ہیں او ر اس طرح فرماں بردار کے مقابلے میں نافرمان اللہ تعالیٰ کے کہیں زیادہ قریب اور باادب ہو جاتا ہے۔‘‘ (ص: ۱۰۱)
پھر لکھتے ہیں:
’’صوفی اور جوگی اور راہب سب ایک ہی راہ کے راہی ہیں اور زندگی کے بارے میں سب کی ایک ہی منطق اور ایک ہی اسلوب ہے جس کا نام ہے ’’زہد۔‘‘
(ص: ۱۰۱)
پھر فرماتے ہیں:
’’جوگی اور راہب اور مسلمان صوفی سب ایک ہی اسلوب سے اللہ کا قرب اور
|