سے پیدا کیا۔ ‘‘ یہ مٹی سے درجہ بدرجہ در قدم بقدم انسان کے پھوٹنے اور وجود میں آنے کی بات ہے۔یعنی ایلبا سے اسفنج ، اس سے نرم حیوانات اور ان سے چھلکے والے حیوانات، اور ان سے ہڈی والے حیوانات، اور ان سے مچھلیاں ، مچھلیوں سے زمین پر گھسٹنے والے جانور، اور ان سے چڑیاں اور چڑیوں سے چھاتی والے جانور بنتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ اللہ کے فضل و ہدایت اور راہنمائی سے آدمیت کا اعلیٰ مرتبہ وجود میں آیا۔‘‘ [1]
ڈاکٹر مصطفی محمود کا یہ اسلامی مفکر درحقیقت سوڈان کا ایک زرعی انجینئر ہے جس نے تصوف کا مطالعہ کیا اور اس دعوے تک پہنچا کہ اس سے تمام شرعی احکام ساقط ہو گئے ہیں۔ (اور وہ مکلف نہیں رہ گیا) کیونکہ وہ یقین کے مرحلے تک پہنچ گیا ہے۔ اس کی کتاب تو وہی نماز کے متعلق ہے جس سے ڈاکٹر مصطفی محمود نے مذکورہ عبارت نقل کی ہے۔ اس کے علاوہ اس کی کچھ او ر کتابیں بھی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی ایک کتاب ’’ تفسیر قرآن کی عصری کاوش‘‘ کے ردّ میں بھی ہے۔
ڈاکٹر موصو ف کو محمود محمد طٰہ کی کتاب الصلاۃ کی جو بات پسند آئی ، اور جسے ہم ابھی نقل کر چکے ہیں وہ درحقیقت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے معاملے میں ڈارون کے نظریے کو گھسیڑنے کی عجیب و غریب کوشش ہے۔ حالانکہ اب اس نظریہ پر کسی کو یقین نہیں رہ گیا ہے ، سوائے ان لوگوں کے جو ہر قسم کے اوٹ پٹانگ خیال کو لے کر اس سے اللہ عزوجل کے کلام کی تفسیر کرنے بیٹھ جاتے ہیں، اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں یہ بات کشف اور مجاہدہ کے ذریعے سے معلوم ہوئی ہے۔ حالانکہ وہ محض کافروں اور ملحدوں کے افکار و خیالات کی نقل ہوتیْ ہے جس پر وہ قرآن کریم کی آیات کا لیبل لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔
باقی رہی یہ بات کہ تفسیر و تعبیر قرآن کی عصری کاوش صوفیانہ افکار کے دائرہ سے اُٹھی ہے تو اس کی دلیل قرآن کے متعلق ڈاکٹر مصطفی محمود کی حسب ذیل عبارتیں ہیں:
|