Maktaba Wahhabi

211 - 336
گناہوں میں اپنا مال خرچ کر ڈالاہو ، اور اس کی اولاد اس کی وجہ سے محتاج ہو گئی ہو ، تو اولاد کو اس مصیبت پر صبر کرنا لازم ہے ، اور اولاد اپنی بدقسمتی پر باپ کو ملامت کرے تو اس کے سامنے تقدیر کی تذکیر کی جائے گی۔ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صبر واجب ہے ۔اس سے بھی بلند تربات ہے راضی برضا رہنا۔ بعض راضی برضارہنا واجب اور بعض مستحب قرار دیتے ہیں ، دوسرا مسلک صحیح ہے۔ اس سے بھی بلند تر مقام یہ ہے کہ انسان مصیبت پر شاکر رہے کیوں کہ مصیبت کی وجہ سے اس پر اللہ کا انعام بایں طور ہے کہ وہ مصیبت اس کے گناہوں کا کفارہ اور بلندیٔ درجات کا باعث بنے گی۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے وہ رجوع کرے گا ، اس سے عاجزی کرے گا ، مخلوقات سے ہٹ کر صرف اللہ پر توکل اور اسے اپنی امیدوں کا مرکز بنا نے میں نہایت پر خلوص ہوگا۔ گمراہ اور سرکش لوگوں کا وطیرہ ہے کہ وہ ارتکابِ گناہ و اتباع خواہشات کے مجرم ہوتے ہیں ، تو تقدیر کو حجت بناتے ہیں ، نیکیوں کے باعث ان پر انعامِ الہٰی کی بارش ہوتی ہے تو وہ اپنی جانب منسوب کرتے ہیں ، جیسا کہ کسی عالم نے کہا ہے: ’’ تو طاعت کے وقت قدری[1]اور معصیت کے وقت جبری[2] بن جاتا ہے ، جو مذہب بھی تمہارے جی کے موافق ہو ، اس پر چل پڑتے ہو۔ ‘‘ راست لوگ جب نیکی کرتے ہیں تو خود پر اللہ کے فضل و کرم کا مشاہدہ کرتے ہیں ، وہ دیکھتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ اسی نے ان کو مسلمان بنایا ، ان کو نماز کا پابند بنایا ، ان کے دل میں تقویٰ کی بات ڈالی ، جو تدبیر اور توانائی بھی ہے اسی کی بدولت ہے ، تقدیر کا تماشا دیکھ کر کرتے ہیں ، تو اس سے توبہ و استغفار کرنا ان کا شیوہ ہوتا ہے۔ [3]
Flag Counter