شریعت میں ، یااس لیے کہ سزادنیامیں ہے آخرت میں نہیں ہے۔یہ سارے کے سارے اقوال باطل ہیں۔
حدیث کامطلب یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے باپ کوصرف اس وجہ سے ملامت کیاکہ شجرۂ ممنوعہ (منع کیاگیادرخت)کھالینے سے مصیبت آئی۔ کہا:آپ نے ہمیں اور اپنے آپ کوجنت سے کیوں نکال باہر کیا؟ یہ ملامت اس لیے نہ تھی کہ آدم علیہ السلام نے گناہ کیااور توبہ کرلی ، کیونکہ موسیٰ علیہ السلام جانتے تھے کہ گناہ سے توبہ کرلینے والالائق ملامت نہیں ہوتا ، انہوں نے خودبھی توبہ کی تھی۔ اگرآدم علیہ السلام کایہ عقیدہ ہوتاکہ تقدیرکی وجہ سے وہ ملامت سے بری ہوگئے ہیں تویہ نہ کہتے:
(رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ )(الاعراف:۲۳)
’’اے ہمارے رب! ہم نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا ، اور اگر تو معاف نہ کرے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم زیاں کاروں میں سے ہو جائیں گے۔ ‘‘
مومن کو حکم ہے کہ مصائب کے وقت صبر کرے ، اور راضی برضا رہے ، گناہ سرزد ہو جائے تو توبہ و استغفار کرے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ )(التغابن: ۱۱)
’’ کوئی مصیبت اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی ، جو اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔ ‘‘
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے :’’یہ وہ شخص ہوتا ہے جسے مصیبت پہنچے تو سمجھ لے کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے ، لہٰذا راضی برضا رہے۔ ‘‘
مومنوں پر جب بیماری ، غریبی اور ذلت اور مسکنت جیسی مصیبت آتی ہے ، تووہ اللہ کے فیصلہ پر صبر کرتے ہیں ، اور اگر یہ مصیبت کسی اور گناہ کے باعث ہو مثلاََ کسی کے باپ نے
|