’’کیاانسان یہ سمجھتاہے کہ اسے بیکارچھوڑدیاجائے گا۔ ‘‘
صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدم اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان ایک بحث ہوئی ، موسیٰ علیہ السلام نے کہا:اے آدم!آپ ابوالبشرہیں اﷲ تعالیٰ نے آپ کواپنے ہاتھ سے پیداکیا ، اور آپ میں روح پھونکی ، اپنے فرشتوں سے آپ کے لیے سجدہ کرایا مگراس کے باو جود آپ نے اپنے آپ کواور ہمیں بھی جنت سے نکلوا دیا؟ آدم علیہ السلام نے جواب دیا:آپ وہ موسیٰ ہیں ، جنہیں اﷲ نے صفت کلیمی سے نوازااور اپنے ہاتھ سے آپ کے لیے توراۃ لکھی ، ذرایہ بتائیے کہ میری تخلیق سے کتنی مدت پہلے آپ نے یہ آیت لکھی ہوئی دیکھی ہے؟: {وَعَصَیٰ آدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی} آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی ، پس وہ بہک گئے۔ ‘‘ موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا:چالیس سال پہلے۔ آدم علیہ السلام نے فرمایا: تو پھر آپ مجھے ایسی بات پرکیوں ملامت کرتے ہیں جسے اﷲ تعالیٰ نے مجھے پیداکرنے سے چالیس سال پہلے میری تقدیرمیں لکھ دیاتھا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بحث میں آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غالب آگئے۔ ‘‘ [1]
اس حدیث کوسمجھنے میں دوگروہ گم کردہ راہ ہوگئے ، ایک نے اسے جھوٹی قرار دیا ، کیونکہ اس کے خیال میں تقدیر کے پیش نظر اﷲ کی معصیت اختیارکرنے والامذمت اور سزا دونوں سے بالاتر ہوگا۔
دوسراگروہ وہ ہے جو پہلے سے بھی زیادہ گمراہ ہے ، اس نے تقدیرکوحجت بنالیا۔اس کا کہنا ہے کہ تقدیر حقیقت والوں کے لیے جواسے دیکھ چکے ہیں یاان لوگوں کے لیے جوفعل کے قائل ہیں ، حجت ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام پرآدم علیہ السلام اس لیے غالب آئے کہ وہ ان کے باپ تھے ، یااس لیے کہ وہ توبہ کرچکے تھے ، یااس لیے کہ گناہ ایک شریعت میں تھا اور ملامت دوسری
|