متاول ہے تو وہ معذور ہے اس پر کچھ گناہ نہیں اسے تعلیم دینا واجب ہے پھر جب قرآن اور حدیث سے اس پر حجت قائم ہو جائے اور وہ سرکشی اور عناد کرتے ہوئے ان دونوں کی مخالفت کرے تو وہ کافر ہے اس پر مرتد ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔‘‘
ایک اورمقام پر لکھتے ہیں:
’’وأبین من شیء فی ہذا قول اللّٰہ تعالی:( إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَنْ يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ )(المائدۃ: 112) إلی قولہ:(وَنَعْلَمَ أَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا )(المائدۃ: 113) فہؤلاء الحواریون الذین أثنی اللّٰہ عزوجل علیہم قد قالوا بالجھل لعیسی علیہ السلام ہل یستطیع ربک أن ینزل علینا مائدۃ من السماء ولم یبطل بذلک إیمانہم وہذاما لا مخلص منہ وإنما کانوا یکفرون لو قالوا ذلک بعد قیام الحجۃ وتبیینہم لھا۔‘‘[1]
’’اس مسئلہ میں سب سے واضح اللہ تعالیٰ کا یہ کلام ہے ’’اور جب حواریوں نے کہا: اے عیسیٰ ابن مریم!کیا تمہارا رب ہم پر آسمان سے خوان نازل کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔‘‘ اللہ کے اس فرمان تک: ’’اور ہم جان لیں کہ تو نے ہم سے سچ کہا ہے۔‘‘ یہ وہی حواری ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے مدح سرائی کی ہے جنہوں نے جہالت کی بناء پر عیسیٰ علیہ السلام سے کہا: کیا تیرا رب ہمارے اوپر آسمان سے خوان نازل کرنے کی طاقت رکھتا ہے؟ اس سے ان کا ایمان باطل نہیں ہوا یہ وہ دلیل ہے جس سے چھٹکارا اورمفر نہیں، وہ کافر تو تب ہوتے جب ان پر قیام حجت ہو جاتی اور بات واضح طور پر ان کے لیے کھل جاتی، اس کے بعد بھی یہی کہتے۔‘‘
علامہ ابن الوزیر رحمہ اللہ مذکورہ بالا حدیث جو ایک آدمی کی وصیت کے بارے میں ہے ذکر کرنے کے بعد رقمطراز ہیں:
’’وفی حدیث حذیفۃ أنہ کان نباشا وإنما أدرکتہ الرحمۃ لجھلہ وإیمانہ باللّٰہ والمعاد لذلک خاف العقاب وأما جھلہ بقدرۃ اللّٰہ تعالی علی ما ظنہ محالا فلا یکون کفرا إلا لو علم أن الأنبیاء جاؤا بذلک وأنہ ممکن مقدور ثم کذبہم أو أحدا منہم لقولہ تعالی وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا وہذا أرجی حدیث لأہل الخطأ فی التأویل۔‘‘[2]
|