ھٰذَا شَیْخٌ لَّمْ یُعْرَفْ بِثِقَۃٍ وَّأَمَانَۃٍ، وَلَا ضَبْطٍ وَّعَدَالَۃٍ، بَلْ ھُوَ مَجْھُولٌ غَیْرُ مَعْرُوفٍ بِالنَّقْلِ، وَلَا مَشْھُورٍ بِالرِّوَایَۃِ، وَلَمْ یَرْوِ عَنْہُ غَیْرُ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَیْضِ، رَوٰی عَنْہُ ھٰذَا الْـأَثَرَ الْمُنْکَرَ ۔
’’یہ ایسا راوی ہے، جس کی امانت ودیانت اور ضبط وعدالت معلوم نہیں ۔ یہ مجہول ہے اور نقل روایت میں غیر معروف ہے۔ یہ روایت میں بھی مشہور نہیں ۔ اس سے محمدبن فیض کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی اور اس نے بھی یہ منکر قصہ اس سے روایت کیا ہے۔‘‘
(الصّارم المُنکي، ص 314)
2. سلیمان بن بلال بن ابی درداء کے متعلق ابن عبد الہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
بَلْ ھُوَ مَجْھُولُ الْحَالِ، وَلَمْ یُوَثِّقْہُ أَحَدٌ مِّنَ الْعُلَمَائِ، فِیمَا عَلِمْنَاہُ ۔
’’یہ مجہول الحال ہے۔ ہمارے مطابق کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔‘‘
(الصّارم المُنکي، ص 314)
3. سلیمان بن بلال کا سیّدہ ام درداء رضی اللہ عنہا سے سماع بھی ثابت نہیں ۔
٭ حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لَا یُعْرَفُ لَہٗ سَمَاعٌ مِّنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ ۔
’’اس کا سیّدہ ام دردا رضی اللہ عنہا سے سماع بھی معلوم نہیں ہو سکا۔‘‘
(الصّارم المُنکي، ص 314)
٭ حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں آخری فیصلہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَھُوَ أَثَرٌ غَرِیبٌ مُّنْکَرٌ، وَإِسْنَادُہٗ مَجْھُولٌ، وَفِیہِ انْقِطَاعٌ ۔
|