اپنے نبی کے مقام ومرتبہ سے نہیں بڑھ سکتا۔علاوہ ازیں انبیاء کرام علیہم السلام اپنے امتیوں کے لیے آئیڈیل شخصت ہوتی ہیں اس لیے امتی ان کے مقام ومرتبہ پر رشک کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس حدیث مبارک کے الفاظ کا ترجمہ وہی صحیح ہے جو علامہ سعیدی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا۔[1]
اورعلامہ سعیدی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نہایت خوش اخلاق‘خوش مزاج‘کم گو‘شیریں اخلاق اور برد بار انسان تھے مکارم اخلاق کا حسین نمونہ اور زہد وتقوٰی اور عبادت وریاضت میں بے مثال ہیں‘ ہمدردی وغم خواری‘عفوودرگزر‘صبر وتحمل اور حق گوئی وبے باکی کے عظیم پیکر ہیں آپ بے حد منکسر المزاج اور متواضع شخصیت کے مالک تھے‘ جس شخص کو بھی آپ کے ساتھ چند دن گزارنے کا اتفاق ہوتا ہے وہ آپ کے حسنِ اخلاق کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔
علامہ سعیدی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اللہ تعالیٰ کے ان محبوب ومقرب بندوں میں ہوتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے’حج اکبر‘ کی عظیم سعادت عطا ء فرمائی ہے۔ علامہ سعیدی رحمۃ اللہ علیہ جب 1994ء میں زیارت حریم طیبین کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے تو اللہ نے آپ کو حجِ اکبر کی سعادت سے بہرہ مند فرمایا۔مومن نیکیوں کا حریص ہوتا ہے اور یہی بات ہمیں علامہ صاحب کی عملی زندگی اور ان کے افکار سے معلوم ہوتی ہے‘علامہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ پیدل حج کرنا چاہتے تھے کہ ہر قدم پر حرم شریف کی سات سو نیکیوں کا اجر حاصل کرسکیں لیکن کمر کے درد کی وجہ سے اس خواہیش کو پورا نہ کر سکے لہٰذا’’ نعمۃ الباری کی جلد سوم کی حدیث نمبر 1514‘‘ کی شرح میں آپ نے سواری پر حج اور پیدل حج کرنے کی فضیلت پر احادیث کی روشنی میں بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ سواری پر حج کرنا افضل ہے‘اس بحث میں رقمطراز ہیں:
’’میں پیدل حج کر کے ہر قدم پر حرم شریف کی سات سو نیکیوں کا اجر حاصل نا کر سکا‘اس چیز کا مجھے بہت قلق رہتا تھا لیکن آج ان سطور کو لکھتے وقت میں سوچ رہا ہوں: میں پیدل حج کر کے اپنی قلبی خواہش کو پورا نہ کر سکا لیکن میں نے سواری پر حج کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو پالیا اور سواری کے کرائے پر جو میں نے رقم خرچ کی تو ایک حدیث کے مطابق مجھے ایک روپے کے بدلے دس لاکھ روپے راہِ خدا میں خرچ کرنے کا اجر ملے گا۔ سو اس بحث کو لکھتے وقت پیدل حج نہ کرنے کی وجہ سے مجھے چودہ سال ملال تھا‘ وہ آج جاتا رہا۔ [2]
اسی طرح سعید ملت جناب مولانا سعیدی رحمۃ اللہ علیہ تحریر وتقریر میں یدِ طولٰی اور مکمل دسترس وعبور رکھتے تھے۔آپ جس مسئلہ پر بھی قلم اُٹھاتے تھے اس کا حق ادا کرتے تھے اور اس پر قرآن وحدیث سے دلائل وبراہین کے انبار لگا دیتے تھے۔اب تک آپ کی گراں قدر تصانیف دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیل چکی ہیں اور علمی ودینی حلقوں میں بے پناہ مقبولیت حاصل کر چکی ہیں آپ نے اپنی تدریسی زندگی کے آغاز کے ساتھ ہی تصنیف وتالیف کے عظیم کام کا بھی آغاز کر دیا تھا۔
|