Maktaba Wahhabi

83 - 263
سے نوازا تھا‘ سب سے بڑھ کر یہ عنایت کہ آپ کو دینِ مبین کی خدمت و اشاعت کے لیے منتخب فرمایا اسی طرح ایک حدیث مبارک میں معلم کائنات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’من یرد اللّٰه به خيرا يفقه في الدين‘‘[1] ’’اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے فقیہ(علم شریعت کا ماہر)بنا دیتا ہے۔‘‘ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بے مثال قوت حافظہ‘ وسعت مطالعہ اور اجتہادی بصیرت عطا فرمائی تھی آپ قدیم وجدید علوم وفنون کے جامع تھے‘ مدارس اسلامیہ میں رائج تمام علوم پر آپ کو مکمل دسترس حاصل تھی۔ آپ نے ابتدائی زمانہ تدریس میں یہ تمام مروجہ علوم وفنون پڑھائے تھے۔ آپ کو حسب ِ ذیل علوم وفنون میں یدِ طولٰی حاصل ہے خصوصا علم حدیث‘علم تفسیراور علم فقہ میں آپ کو مکمل دسترس اور ملکہ حاصل ہے۔باقی علوم یہ ہیں: علوم قرآن‘علم تفسیر‘ اصول تفسیر،علم حدیث‘ اصول حدیث‘علم الکلام‘ علم الفرائض‘ فقہ‘اصول فقہ‘ منطق‘فلسفہ‘ صرف‘ نحو‘معانی‘ بیان‘ عروض وقوافی‘تاریخ‘سیر‘ اخلاق وشمائل‘تصوف‘بدیع‘فضائل‘افتاء‘رسم الافتاء‘اسماء الرجال‘مناظرہ‘ طب‘ ہندسہ‘ ادب‘ سیاست‘انشاء‘معیشت۔[2] علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ صاحب ایک وسیع النظر فقیہ تھے آپ فتوٰی نویسی میں غیر معمولی مہارت وملکہ رکھتے تھے۔بڑے بڑے مفتی حضرات بھی پیچیدہ مسائل میں اکثر وبیشتر آپ سے رجوع کرتے ہیں اور علمی وفقہی استفادہ کرتے تھے۔ آپ کے پاس برصغیر پاک وہند کے علاوہ یورپ وامریکہ اور افریقہ سے استفتاء بھیجے جاتے تھے۔آپ کی جملہ تصانیف جلیلہ کے مطالعہ سے آپ کے تبحر علمی ‘ وسعت مطالعہ‘قوت استدلال‘اصابت رائے اور اجتہادی بصیرت کابا خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آپ کے اکثر فتاوٰی اعلٰی ترین تحقیقی مقالہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ اگر آپ کے فتاوٰی کو الگ الگ جمع اور مرتب کیا جائے تو ایک ایک فتوٰی ایک مکمل کتاب کی صورت میں آ سکتا ہےاور اس طرح کئی عظیم کتابیں مطلعِ علم وفکر پر آ سکتی ہیں۔ علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ ایک بے مثال عالم دین اور بہترین مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بے بدل خطیب بھی تھے‘ آپ کا انداز خطابت آ پ کے پیر طریقت حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی علیہ الرحمۃ سے ملتا تھا ‘ آپ جو بھی بات کرتے تھے دلائل وبراہین کے ساتھ اور پوری ذمہ داری کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے۔ ہر مسئلہ میں قرآن وحدیث سے دلائل کے انبار لگا دیتے تھے ‘آپ کا خطاب مدلل‘ مستند‘ اثر آفرین اور علم وادب سے مرقع اور عام فہم ہوتا تھا۔جب تک کسی واقعہ‘کسی مسئلہ‘یا کسی حدیث کی بابت معلوم نہ ہو اس کو بیان نہیں کرتے۔اور اس کی بذات خود تحقیق و جستجو کرتے تھے اور اپنے تلامذہ کو بھی یہی نصیحت کرتے تھے۔ آپ جب کراچی تشریف لائے تو سب سے پہلے آپ نے جامع مسجد ’رحمانیہ‘
Flag Counter