Maktaba Wahhabi

73 - 263
ملٹری بیوروکریسی میں ایک منصوبےکےتحت قادیانی بطورِ افسربھرتی کروائے۔متحدہ ہندوستان سے ورثےمیں ملنےوالےسینئرسول اور فوجی افسران قادیانی تھے۔ادھر چنیوٹ کے قریب’’ربوہ‘‘کے نام سے قادیانی نبوت کا ہیڈ کوارٹر بنالیاگیا۔حتّٰی کہ مرزا بشیر الدین محمود نے بلوچستان کو قادیانی صوبہ بنانےکااعلان کر دیا اس طرح خدشہ پیدا ہوگیاکہ کہیں پاکستان قادیانی سٹیٹ نہ بن جائے۔ [1] سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور زعمائے احرار نے انتہائی ذمہ داری اور سنجیدگی سے صورتِح حال کا جائزہ لیا اور مہینوں کے مشورے کے بعد حسبِ ذیل تین نکاتی ایجنڈے پر اتفاق کیا۔ [2] 1: مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکاروں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ 2: چوہدری ظفر اللہ خان کو وزارتِ خارجہ سے ہٹا یا جائے۔ 3: دیگر قادیانیوں کو کلیدی عہدوں سے الگ کیا جائے۔ مارچ 1949ء میں جب کہ دار العلوم تعلیم القرآن کا سالانہ جلسہ راولپنڈی کے کمپنی باغ میں ہورہا تھا۔امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلی بار یہ مطالبات حکومت اور عوام کے سامنے رکھے۔ [3]احرار ہنماؤں نے اس تین نکاتی ایجنڈے کو آئندہ کے لیے اپنا مقصدِتحریک بنالیااورہرجلسےمیں ان مطالبات کو مسلسل دُہراتے رہے یہاں تک کہ رائے عامہ ہموار ہو گئی جس نے بالآخر ملگ گیر تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ [4] احرار کی جدوجہد تین سال تک جاری رہی۔حکومت سے مذاکرات بھی ہوئے خواجہ ناظم الدین وزیرِ اعظم نے مطالبات تسلیم کرنے سے معذوری ظاہر کی اور بین الاقوامی دباؤ کا عذر پیش کیا۔اس پر علماء کی مجلسِ عمل نے راست اقدام کا فیصلہ کیا۔حکومت پنجاب نے مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کو جن علماء کی گرفتاری کا حکم جاری کیا ان میں سب سے پہلا نام’’مولانا غلام اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ ‘‘خطیب جامع مسجد پرانا قلعہ راولپنڈی کاتھا۔[5] مولانا رحمۃ اللہ علیہ کو 28فروری کی رات کو گرفتار کر لیا گیا جس پر تاریخ کا سب سے بڑا احتجاجی جلسہ لیاقت باغ راولپنڈی میں ہوا۔[6]لیکن حلات کافی خراب ہوئے اور حکومت کو قادیانی نبوت اور امریکی گندم عزیز ہوئی اور مارشل لاء لگا دیا گیا اور مختلف اضلاع میں ہزاروں نوجوان گولیوں کی نظر ہوگئےاور ہزاروں علماء کو قید وبند کی صعوبتیں دی گئیں اور حکومت
Flag Counter