Maktaba Wahhabi

74 - 263
نے اس تحریک کو فسادت کانام دے کر انکوائری بٹھائی اور انکوائری کمشنرز کو سفارش کی کہ اس تحریک کو خلاف قانون قرار دیں اور اس پر پابندی لگائیں لہٰذا اس تحریک پر پابندی لگا دی گئی۔[1] مجلس احرارِ اسلام کو خلاف قانون قرار دیئے جانے کے بعد علماء میں جماعتی خلا پیداہوگیاجسے پُر کرنے کے لیے مولانااحمدعلی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ نے 1954ء میں علماء کا ملک گیر کنونشن لاہور میں بُلایا اور اتفاق رائے سے مولانا احمد علی رحمۃ اللہ علیہ لاہوری کوامیراورمولانا احتشام الحق تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کوناظم اعلٰی چنا گیا۔مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ذمہ داری قبول کرنے سے معذرت کرلی تو یہ ذمہ داری مولانا غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ کے سپرد کر دی گئی۔مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کے ایماء پر مولانا غلام اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ کوضلع راولپنڈی کا امیر اور عاملہ وشورٰی کی مرکزی مجالس کا رکن مقرر کیا گیا۔[2] ’’مسئلہ توحید‘‘ کےاعلاء بیان کے وجہ سے مولانا رحمۃ اللہ علیہ کو بہت سی مصیبتوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا‘ آپ کی محافل ومجالس میں سنگ باری کی گئی اور آپ پرگولیاں بھی چلائی گئیں‘اس سلسلے کی ایک کڑی پشاور شہر میں ہونےوالا قاتلانہ حملہ ہے۔جمعرات 27 دسمبر 1954ءکی رات مولانا جامع مسجد قاسم علی خان میں تقریر کے بعد مصروفِ دعا تھے کہ ایک شخص عبد الرؤف ولد غلام حیدر پشاوری نے پیچھے سے گردن دبوچ لی اور تیز دھار استرے سے گردن کاٹنے کی کوشش کی اس دوران اس نے ناک‘کان اور ہاتھوں پر چھ کاری وار کیے زخم بہت گہرے تھے‘حملہ آور کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا گیا اور مولانا کو ہسپتال پہنچایا گیا اور کئی روز زیرِ علاج رہے اور اس واقعے کی خبر ہر طرف پھیل گئی اور علماء آپ کی صحت یابی کی دعائیں بھی کرتے رہے۔ حملہ آور مسمی عبد الرؤف پشاوری پر زیرِ دفعہ 308 تعزیراتِ پاکستان کے تحت مقدمہ چلایا گیا۔مجسٹریٹ درجہ اول خان حزب اللہ خان نے اپنے فیصلے مجریہ 18 جون 1958ء میں لکھا: 1. عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہے۔انبیائے کرام علیہ السلام کو بھی غیب کی خبریں ملتی رہیں وہ وحی کے ذریعے دی گئیں۔ خود انبیائے کرام علیہ السلام عالم الغیب نہیں ہوتے۔ 2. ہر جگہ موجود اور حاضر وناظر ہونا خاص اللہ کا وصف ہے اور کوئی دوسرا کسی بھی صفتِ خداوندی میں اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں۔ 3. تمام قدرت واختیاراللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے۔ 4. پیغمبر کسی کو اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچا نہیں سکتے۔نہ ہی اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کسی کے کام آ سکتے ہیں۔
Flag Counter