اور وہ شعبہ تبلیغ کے اہم رکن تھے۔انکا مدرسہ تمام راہنمایانِ آزادی کا مستقر تھا۔شمال مغربی صوبہ پنجاب میں انگریزی حکومت کی خلاف تحریک میں ان کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ اس’’جرم‘‘ کی پاداش میں انہیں پابند‘ سلاسل بھی کیا گیا۔ان کا شمار احرار کے ان سرفروشوں میں ہوتا ہے جنہوں نے آزادی کی خاطرسب کچھ لُٹا دینے کی قسم کھا رکھی تھی۔وہ بیک وقت مولانا مدنی رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ جی رحمۃ اللہ علیہ کے معتمد ساتھیوں میں سے تھے۔
مدرسہ تعلیم القرآن اپنی زندگی کی پانچ بہاریں ہی دیکھ پایا تھا کہ اسے اپنے سرپرستِ اعلٰی اور مؤسس اول حضرت مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کا صدمہ سہنا پڑا۔مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ رجب 1363ھ بمطابق 1944ء میں چند ماہ کی علالت کے بعد وفات پاگئے۔مولانا غلام اللہ خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ علالت کے دوران مسلسل اپنے شیخ کی خدمت میں رہے۔مولانا عبد الرزاق صاحب کا بیان ہے کہ:
’’بیماری کی شدت کے باوجود والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ شیخ القرآن صاحب کو بلا لیتے اور مختلف آیات سےمتعلق اپنی تحقیقات اورتفسیری معارف بیان فرماتےرہتےتھے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک طرح سے انتقالِ نسبت کااہتمام ہورہاتھا۔گھرکےتمام افراداورقریبی مریدین خوب جانتےتھےکہ والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں شیخ القرآن کی کیا حیثیت ہے اس لیے جب 4 رجب 1363ھ بروزسوموارحادثۂ وفات پیش آیا۔اس وقت شیخ صاحب موجودنہ تھےاس لیےسب گھروالےاور موجودخلفاءومریدین چاہتےتھےکہ کسی طرح شیخ کواطلاع ہوجائے۔حسنِ اتفاق دیکھیےکہجب لوگ ٹیلی گرام دینےکےلیے ریلوےاسٹیشن پہنچےتوشیخ القرآن رحمۃ اللہ علیہ گاڑی سے اتر رہے تھےوہیں وفات کی خبر سنی چنانچہ والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو غسل بھی شیخ القرآن رحمۃ اللہ علیہ نےدیا۔کفن بھی انہوں نے پہنایا۔نمازِجنازہ بھی انہوں نےپڑھائی اورپھر قبرمیں بھی اتارکرسپردِخاک کیا۔‘‘[1]
حضرت مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات جہاں مولانا رحمۃ اللہ علیہ کےلیے ایک صدمہ جانگاہ تھی وہیں ان پر دوہری ذمہ داری آپڑی۔ اب انہیں رجوع الی القرآن اور دعوتِ توحید کی حسینی تحریک کو نئے سرے سے ترتیب دینا اور چلانا تھا اور اپنے شیخ کی نیابت کا حق ادا کرنا تھا۔
شیخ القرآن رحمۃ اللہ علیہ ان خوش قسمت لوگوں میں سےتھےجنہیں باربارفریضۂحج اداکرنےکی سعادت حاصل ہوئی تاہم پہلی بار1946ءمیں حج کی غرض سےارضِ مقدس حاضری کاشرف حاصل ہوا۔یہ سفر بحری جہازکےذریعےہوا کیونکہ اس زمانےمیں یہی واحدذریعہ تھا۔قریباًچھ ماہ بعداس سفرمقدس سےواپسی ہوئی‘انکی غیر حاضری میں ان کے والدصاحب ملک
|