Maktaba Wahhabi

70 - 263
خدمت کریں۔مولانا قاضی شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ ‘مولانا عبد الرؤف رحمۃ اللہ علیہ ‘مولاناقاضی نورمحمد رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا منوردین کے اصرار پرمولانا رحمۃ اللہ علیہ نےسکول کی ملازمت ترک کرکے خود کو تعلیمِ قرآن اور دعوت توحیدکے لیے وقف کر دیا۔[1] سکول کی ملازمت ترک کرنے کے بعد مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مستقل دینی درسگاہ قائم کرنےکا پروگرام بنایا اور اپنے شیخ کی طرز پرپہلی باردورۂ تفسیر سے اس کا آغاز کیا۔مولانا قاری حبیب الرحمٰن‘ مولانا غلام اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالےسے بتاتے ہیں: ’’جب میں نے دورۂ تفسیر پڑھانے کا ارادہ کیاتوحضرت رحمۃ اللہ علیہ سےاجازت لینےکےلیےواں بھچراں حاضرہوا۔حضرت صاحب میراپروگرام سن کربہت خوش ہوئےاورفرمایا: ’’اللہ راضی تھیوی شروع کربرکت تھیسی۔‘‘ چنانچہ مولانا غلام اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں ’’میں نے پہلی مرتبہ 1938ءمیں دورۂ تفسیرپڑھا کراس مدرسےکاآغازکیا۔ حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ نےاس کانام مدرسہ تعلیم القرآن تجویزفرمایا۔‘‘ حضرت مولانا غلام اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ اس مدرسہ کے بارےمیں بہت زیادہ حساس تھےاوراپنےحلقۂ اثرکےعلماءکو مدرسہ کےساتھ تعاون اورمخیرحضرات کوامدادکی ترغیب دلاتےرہتےتھے۔خودبھی مدرسےکےلیےچندہ کرتے اوراپنےدورِآخریں کےتلامذہ کو ہدایت کرتے کہ راولپنڈی جاکر شیخ القرآن سے بھی قرآن پڑھ لیں تو انہیں دوہرا فائدہ ہوگا۔[2] اس مدرسے کا مقصد تعلیم وتدریس اور تبلیغ واشاعت کے ذریعے عوام وخواص کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانا‘ قرآن کے پیغام کو عام کرنا اور اشاعتِ توحیدوسنت قرار پایا۔مولانا غلام اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ شروع میں تمام اسباق خود پڑھایا کرتے تھے بعد میں تبلیغی مصروفیات کے باعث یہ سلسلہ موقوف کر دیا اور خود کو صرف قرآن حکیم کی تدریس وتفسیر کے لیے وقت کر دیا۔تاہم بعض اوقات تبرکاً حدیث اور درسِ نظامی کی کتابیں بھی پڑھایا کرتے۔[3] مولانا کے زمانے میں ہند‘والے انگریزوں کے خلاف جدوجہدآزادمیں مصروف تھے۔علماء ہند مولانا حسین احمدمدنی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں جمعیۃ العلماء ہند کے پلیٹ فارم پر سرگرمِ عمل تھے جبکہ شمال مغربی صوبوں میں امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور ان کی مجلسِ احرارِ اسلام کا طوطی بول رہاتھا۔دونوں جماعتوں کے قائدین شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کے خوشہ چین تھے اور مولانا مرحوم بھی اس فکر کے داعی ومبلغ تھے۔چنانچہ انہوں نے 1934ء میں جمعیت اور احرار دونوں جماعتوں کی رکنیت اختیار کر لی بلکہ مجلسِ احرار اسلام کے ساتھ ان کا تعلق خاصہ گہرا تھا
Flag Counter