نے گجرات کو خیرباد کہہ دیا اورانہی دنوں حسینی فکر کا ایک دوسرا مبلغ گجرات میں داخل ہوا۔[1]
مولانا کو جن حالات میں گجرات سے نکلنا پڑا وہ خاصےحوصلہ شکن تھے۔وہ ان حالات سےخاصےمتاثر ہوئے۔اللہ کومنظوریہی تھاکہ خطۂپوٹھوہارجیسے بدعت آبادمیں توحیدوسنت کامرکزقائم ہواورلاالہ الااللہ کے ترانے گونجیں۔[2] قسام ازل نے اس کی صورت یوں پیداکی کہ ڈھیری حسن آبادراولپنڈی کےشیخ عبدالغنی نےجن کا آبائی تعلق گجرات سےتھا اور وہ مولانا کی تقاریر سے بے حد متاثر تھے‘کوشش کرکےآپ کواسلامیہ ہائی سکول راولپنڈی میں دینیات اورعربی کامدرس مقررکرادیااس طرح آپ گجرات سے راولپنڈی منتقل ہوگئے۔[3]
راولپنڈی کا علاقہ اپنےمخصوص حالات اورماحول کےباعث دینی اورسیاسی اعتبارسےبنجرتھا۔شہراوراس کےگرد ونواح میں بےشمار’’گدیاں‘‘قائم تھیں جن میں بیٹھےمجاوراورگدی نشین سادہ لوح مسلمانوں کےدین وایمان اورمال وآبروکےسوداگرتھے۔شاہ چن چراغ‘بری شاہ لطیف کی گدیاں تو عام لوگوں کی دسترس میں۔ذراہٹ کرکلیام‘موہڑہ‘سوراسی اوردیول کی مشہورگدیوں پرشکرک وبدعت کاکاروبارزوروں پرتھا۔کتاب وسنت سےسرکشی اور بغاوت عام تھی۔قبورِاولیاءوصالحین پرسجدہ وطواف‘نذروپکاراورنذرومنت کا رواج تھا۔نماز‘روزے اور دیگراسلامی عبادات کی پابندی اٹھ گئی تھی۔قرآنی تعلیمات کو سمجھنااورسمجھانا اور ان پر عمل پیرا ہونامفقودہوگیاتھا‘ پیرانِ طریفت اورگدی نشین عوام کی جہالت ونادانی سے خوب فائدہ اٹھارہےتھے۔علاقےمیں ان کا بڑا اثرتھا اور ان کےعقائدورسوم کے خلاف آواز بلندکرنا گویا موت کو آواز دینا تھا۔سیاسی لحاظ سےبھی یہ شہر اور علاقہ بالکل بانجھ تھا۔چغل خوری‘جاسوسی‘اورمخبری لوگوں کی عادتِ ثانیہ بن چکی تھی۔اسی لیے مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ جیسےلوگ راولپنڈی کو دارالجواسیس کہاکرتے تھے۔علاقےکےتمام بڑےخاندان انگریز سرکار کے ٹاؤٹ تھے۔اسی دوران پرانےقلعہ کی مسجدمیں خطیب کی ضرورت ہوئی اہل محلہ نے مولانا رحمۃ اللہ علیہ سےرابطہ کیا۔مولانا نےاس شرط پریہ ذمہ داری قبول کر لی کہ’’میں فی سبیل اللہ کام کروں گا مگر میں چاہتا ہون کہ میری بات سنی جائے۔‘‘[4]
یہی مسجد توحیدوسنت کےغلام اللّٰہی اسلوبِ دعوت کا مرکز بنی‘یہیں سےدارالعلوم تعلیم القرآن کی بنیادرکھی گئی اور یہیں سے قرآن پاک کے دورۂ تفسیر کے چشمے پھوٹے۔اس مسجد میں جمعہ کے خطبات اور درسِ قرآن میں لا الہ الااللہ کی مسلسل گونچ نےشہراور گردونواح میں ایک انقلاب برپا کردیا۔تبلیغی مصروفیات بڑھیں۔ مختلف شہروں‘قصبوں اور دیہاتوں میں تقاریرہونے لگیں اوراس بات کی ضرورت محسوس ہونےلگی کہ وہ سکول کی ملازمت ترک کرکےیکسوئی کےساتھ دسن کی
|