Maktaba Wahhabi

68 - 263
’’اگرچہ آپ کو سلوک سے رغبت نہیں ہے مگرمیں آپ کو قرآن کے ذریعے ایساسلوک طے کرادوں گا کہ بڑے بڑے شیوخ وہ کام نہ کر سکیں گے جوکام اللہ آپ سےلےگا اور لوگ آپ پر رشک کیا کریں گے۔‘‘([1]) شیخ کامل کے الفاظ مستجاب ہوئے اور دنیا نے دیکھا کہ مولانا غلام اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ کے قرآنی سلوک سے استفادہ کے لیے عرب وعجم کے علماء دوڑے چلے آتے تھے۔اور دورۂ تفسیر کے دوران تو اہل علم کا اتنا بڑا ہجوم ہو جاتا تھا کہ جامع مسجد تنگ دامانی کا شکوہ کرنے لگتی تھی۔مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے ہم مشرب تو انہین اپنے شیخ کا علمی وروحانی جانشین سمجھتے ہی تھے دیگر اہل علم وبصیرت بھی انہیں حضرت مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ کا ’’خلیفۂ اعظم‘‘ سمجھتے تھے۔چنانچہ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ مؤلف کے نام ایک مکتوب لکھتے ہیں: ’’حضرت مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ ہمارے عہد کے بہت بڑے شیخ اور داعی توحید تھے۔مجھے ان کی زیارت اور ان کی خدمت میں حاضری طی سعادت حاصل ہوئی۔حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے میریدرخواست پرمیرےلیےجودعافرمائی اور جودعائیہ کلمات کہےان پر مجھےفخرہے‘مجھےحضرت کےخلیفۂ اعظم حضرت شیخ القرآن مولاناغلام اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ سےبھی دعائیں لینے کا اعزاز حاصل ہے‘‘[2] مولانا رحمۃ اللہ علیہ روایتی پیروں اور شیوخ کی طرح بیعت نہیں کرتے تھے۔جن خاص لوگوں کو ان سے بیعت کا شرف حاصل ہے ان میں شیخ التفسیر حضرت مولانا عبد الغنی جاجروی رحمۃ اللہ علیہ(رحیم یار خان)اور حضرت الشیخ احمد مدنی(مدینہ منورہ)شامل ہیں اور دونوں حضرات ان سے مجاز بھی ہیں۔[3] تاہم ان کے جماعتی احباب کا کہنا ہے کہ تلامذہ میں سے جس کو دورۂ تفسیر پڑھانے کا تقاضا حضرت شیخ کی طرف سے ہو وہ ان کے مجاز ہیں۔ گجرات میں مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی سرگرمیاں شرک وبدعات کے پر ستاروں کے لیے خاصی پریشان کن تھیں۔چنانچہ کچھ لوگوں نے انہیں گجرات سے نکالنے کامنصوبہ تیار کیا اور حضرت مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کو ایک فرضی خط کے ذریعےمولانا رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے دعوت دی کہ گجرات میں آکر مسئلہ توحید بیان کریں چنانچہ وہ گجرات تشریف لائے اور اپنے روایتی انداز میں مسئلہ توحیدبیان کیا جس پر اہل محلہ ناراض ہو کر مولانا رحمۃ اللہ علیہ کو مسجد سے نکال دیا۔[4] یوں مولانا
Flag Counter