صاحب کا بیان ہے:
’’مولانا فرمایا کرتے تھے کہ قیامِ گجرات کےزمانہ میں کئی بار حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری نے امر تسراور اس کے گردونواح میں ہفتہ ہفتہ بھر کے پروگرام رکھےاور میری تقاریرکرائیں۔وہ میرے بیانات سے بہت خوش ہوتے تھے اور ایک دورہ ختم ہوتے ہی دوسرےدورہ کی تاریخ لے لیا کرتے تھے۔‘‘مولانا نے قیامِ گجرات کے دوران مجلسِ احرارِاسلام کی طرف سے منعقدہونے والی’’قادیان کانفرس‘‘میں شرکت کی۔جو اکتوبر1934ء میں مرزا غلام احمدقادیانی داعئی نبوت کاذبہ کے آبائی شہر اور قادیانی نبوت کے ہیڈ کوارٹرقادیان ضلع گورداسپور میں ہوئی‘جہاں مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی صدارت میں ایک گھنٹہ تک تقریرفرمائی اور قادیانی نبوت کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیئے۔[1]
گجرات ہی کے زمانہ قیام میں مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی شادی خانۂ آبادی’’دریہ‘‘کے ملک سراج احمد کی دختر نیک اختر سے ہوئی۔مولانا کے والدگرامی ملک محمد فیروز خان نے روایتی طریقے سے شادی کی تقریبات کا اہتمام کیا اور علاقہ بھر کے’’ملکوں‘‘ اور’’خانوں‘‘کو دعوت دی اور خوب خوشیاں منائیں۔مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی حد تک سب سے اہم بات یہ تھی کہ شادی کی تقریب میں حضرت مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ صاحب نے بھی شرکت کی مولانا کہتے ہیں:
’’میری خواہش تھی کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ بھی میری شادی میں شریک ہوں مجھے اپنے گھر کےحالات کا بھی پتہ تھا اس لیے خود حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو لینے کے لیے واں بھچراں حاضر ہوا۔
میرے والد اور برادری والوں نے گاؤں کے گدی نشین کے کہنے میں آکرسردمہریکا مظاہرہ کیا مگرمیرے علاقہ کے علماء ان کی آمد کی خبر سن کر ہمارے گاؤں’’دریہ‘‘میں جمع ہوگئےاور تین دن تک برابر علمی محفلین جمتی رہیں جن سے میں نے اور میرے ساتھیوں نے بڑا استفادہ کیا۔‘‘[2]
جب حضرت مولانا حسین علی’’دریہ‘‘میں مقیم تھے۔مولانا غلام اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے دست حق پرست پر مجددی نقشبندی طریقِ سلوک پر بیعت کی اور حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی استعداد کو دیکھتے ہوئے خلعت خلافت عطا کی اور فرمایا:
|