Maktaba Wahhabi

66 - 263
زمانہ تدریس میں ہوا اور گردونواح کے علاقوں میں’’توحیدِ خالص‘‘ کے عنوان پر تقاریر نے ان کی خطابت کو جلا بخشی۔مدرسہ عزیزیہ بھیرہ کے مہتمم مولانا ظہور احمد بگوی رحمۃ اللہ علیہ معتدل مزاج بزرگ تھے ان کے پاس شکایتیں آنے لگیں۔مدرسہ کا مفاد اسی میں تھا کہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ بھیرہ سے چلے جائیں اسی دوران اہل گجرات کا بلاوا آگیا اور مولانا بگوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی گجرات جانے کا مشورہ دیا۔[1] توحید خالص کی دعوت وتبلیغ اور شرک وبدعت کی تردید ومذمت کا سلسلہ گجرات میں جاری رہا بلکہ یہاں پہنچ کر شدت اختیار کر گیا کیونکہ گجرات شرک وبدعت کا گڑھ تھا حضرت شاہ دولہ دریائی رحمۃ اللہ علیہ کا مزارمشرکانہ رسوم کا مرکز تھا اوران سے ندادواستمداد‘اور اولاد طلب کی جاتی تھی اور ان کےنام کی نذرومنت دی جاتی تھی۔ جہالت کا یہ حال تھا کہ انسانوں کے چڑھاوے چڑھائے جاتے تھے(اس سے چھوٹے سروں والے انسان مراد ہیں جنہیں’’شاہ دولے کا چوہا‘‘کہا جاتا ہے)۔مولانا نے اس سلسلے کو للکارا اور درسِ قرآن‘خطباتِ جمعہ اور وعظ وارشاد کی مجالس میں اس کی کُھلے عام مذمت کی۔گجرات کے دیہی علاقوں میں مقیم علماء دیوبند نے آپ کا بھر پر ساتھ دیا اور سر پرستی فرمائی۔اپنے زیر اثر دیہاتوں میں ان کی تقاریر کروائیں ان میں انّہی کے اساتذہ کرام کے علاوہ حضرت مولانا غلام احمد ڈوگوی[2] اور حضرت مولانا شیخ محمدعبد اللہ صاحب ملکہ والے[3]خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ توحیدِ خالص پر مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ وتقاریر کی شہرت رفتہ رفتہ پنجاب بھر میں پھیل گئی۔ادھر وہ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی مجلسِ احرارِ اسلام میں شامل ہو چکے تھے جو اردو خطباء کا بہت بڑا ادارہ تھی۔اس سے مولانا کا نام مشاہیر خطباء کی فہرست میں آگیا۔بڑے بڑے علماء آپ کو اپنے ہاں بلاکر تقاریر کراتے تھے جیسا کہ بابا عبد الشکور
Flag Counter