کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے ایماء پر انہیں سب سے پہلے اپنی مادرِعلمی جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں مدرس رکھ لیا گیا جہاں انہوں نے مدرس عربی علوم کی حیثیت سے ایک تدریس کی اور درسی کتب کے علاوہ تفسیر قرآن بھی پڑھائی۔[1]
اس کے بعد آپ نے پنجاب میں تدریس کا آغاز وزیر آباد سے کیا جہاں مولانا عبد الرحمٰن کے مدرسہ’’برکات الاسلام‘‘ میں دس روپے ماہانہ پر تقرر ہوا۔یہاں آپ تمام درس کتب کے علاوہ حدیث بھی پڑھاتے رہے یہاں آپ کے تلامذہ میں چین سے آئے ہوئے بعض طالب بھی تھے۔ [2]
پھروزیر آباد سے کچھ عرصہ بعد عید گاہ گجرات چلے گئے اب ان کی تدریسی جوہر نکھر گئے تھے اور آپ ایک ماہر فن استاد کی حیثیت سے مشہور ہو چکے تھے۔ طالب علم کثیر تعداد میں آپ کے پاس آنے لگے تھے۔
مولانا عبد الہادی([3])نے بتایا کہ جب حضرت شیخ گجرات سے جامعہ عزیزیہ بگویہ بھیرہ تشریف لے گئے تو ہم تریسٹھ طالب علم بھی ان کے ہمراہ بھیرہ چلے گئے تھے۔اب مولانا ان اساتذہ میں شمار ہونے لگے تھے جن کےبارے میں اہلِ فن اور ماہرین ہدایت کرتے کہ فلاں مضمون اور فلاں کتاب فلان عالم اور فلاں استاذ سے پڑھو‘ مثال کے طور پر یہاں حضرت مولانا محمد رفیق بھرتوی رحمۃ اللہ علیہ کا تذکٰہ مناسب معلوم ہوتا ہے وہ حضرت مولانا رشید احمد محدّث گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد رشید اور منطق وفلسفہ کا بحر ذخار تھے۔ انہوں نے اپنی علالت اور معذوری کے باعث اپنے تلامذہ کو ہدایت کی کہ بھیرہ چلے جائیں اور مولانا غلام خان صاحب سے پڑھیں۔[4] بھیرہ کے مدرسہ عزیزیہ میں مولانا رحمۃ اللہ علیہ دو سال تک رہے۔یہاں قیام کا سب سبے زیادہ فائدہ یہ ہوا کہ وہ مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں برابر حاضری دیتے رہے اور ان سے قرآنی علوم میں استفادہ کرتے رہے کیونکہ بھیرہ واں بھچراں سے دوسرے شہروں مثلاً وزیر آبادو گجرات کی نسبت نزدیک تھا۔
بھیرہ میں دو سال تک تدریس کے بعد مولانا دوبارہ گجرات چلے گئے اور مدرسہ امدادیہ میں صدر مدرس کی حیثیت سے علوم نبوی کی اشاعت کرتے رہے۔بھیرہ اور گجرات کے مشہور تلامذہ میں
مولاناقاضی عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ جھاوریاں‘مولانا محمد اکرم الٰہی‘مولانا عبد الہادی‘مولانا قاضی مظہر حسین چکوالی اور مولانا قاضی چن پیر صاحب حویلیاں شامل ہیں۔ گجرات میں کچھ عرصہ مدرسہ امدادیہ سے وابسہ رہنے کے بعد ایک دوسرے محلے کی مسجد میں امامت وخطابت کرنے لگے اور مدرسہ بھی منتقل ہو گیا۔
تدریس کے ساتھ ساتھ مولانا رحمۃ اللہ علیہ ایک مایۂ نازخطیب بھی تھے اور ان کی شعلہ نوا خطابت کا آغاز بھیرہ کے
|