Maktaba Wahhabi

64 - 263
رحمۃ اللہ علیہ سے ترمذی شریف اور بخاری شریف پڑھیں جب کہ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ سے مسلم شریف پڑھی۔ علامہ انور شاہ رحمۃ اللہ علیہ چونکہ انہیں حضرت مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ کا لاڈلا اور فرستادہ سمجھتے تھے اس لیے ان خصوصی توجہ دی اور ان کا خاص خیال رکھا۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے بہت محنت‘لگن اور انہماک سے علم حدیث کی تحصیل کی اور حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کی تقاریر بھی قلمبند کیں۔[1] مسلم شریف کے درس میں تو انہیں وہ کمال حاصل ہوا کہ اہل علم کو ان کے درس مسلم پر’’فتح الملہم‘‘کا گماں ہوتا تھا۔[2] ڈابھیل میں زمانہ طالب علمی کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے بعض ساتھی طالب علموں کو جن میں اکثریت بنگال سے تعلق رکھنے والوں کی تھی اپنے شیخ حضرت مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ کی طرزِ خاص پر دروۂ تفسیر پڑھایا۔استاد محترم حضرت علامہ انورشاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کو اس کی خبر ہوئی تو بے حد خوش ہوئے اور انعام کے طور پر کپڑوں کا ایک جوڑا بنا کر دیا۔[3] بہر حال مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے 1931ءمیں جب کہ ان کی عمر 27 سال تھی۔ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل سے علامہ کشمیری سے دورۂ حدیث پڑھ کر تحصیل علم کی تکمیل کی۔اسکے بعد عملی زندگی کا آغاز ہوا۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کو دینی علوم کے حصول کا اس قدر شوق بلکہ جوش اور ولولہ تھا کہ ایک بار گھرسے نکلے کئی برس تک واپس گھر نہ گئے کہ کہیں والد صاحب کا ارادہ نہ بدل جائے اور وہ علم حاصل کرنے سے محروم ہو جائیں۔ایک مدرسے سے دوسرے مدرسے اور ایک استاد سے دوسرے استاد تک فیض واکتساب کا یہ سلسلہ کئی برس جاری رہا یہاں تک کہ وطن واپس پر یہ اندوہناک خبر ان کی منتظر تھی کہ ان کی غیر حاضری میں ان کی والدہ کا انتقال ہو چکا ہے۔[4] اہل علم عام طور پر اپنی علمی زندگی کا آغاز تدریس سے کرتے ہیں۔چنانچہ مولانا غلام اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ نے بھی قدرتی طرو پر اسی راہ کو اپنایا اور پھر درس وتدریس عمر بھر کا شغل اور وظیفہ بن گیا۔انہوں نے ڈابھیل‘وزیر آباد‘بھیرہ اور گجرات کے مدارس میں علوم عربی کی تدریس کی اور بالآخر راولپنڈی کو مستقل مسکن بنا کریہاں دارالعلوم تعلیم القرآن کی بنیاد اٹھائی جس کا شمار بعد میں ملک کی بڑی بڑی دینی درسگاہوں میں ہوا۔ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مختلف مدارس میں ان کی تدریسی خدمات کا تذکرہ کر دیا جائے۔ چونکہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے دورۂ حدیث امتیازی حیثیت سے پاس کیا تھا۔نیز وہ مولانا کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے خاص شاگردوں میں بھی شمار ہوتے تھے اور مولانا غلام اللہ نے طالب علم ہوتے ہوئے بھی اپنے ساتھی طالب علموں کو اپنے استاذ مولانا الوانی رحمۃ اللہ علیہ کی طرز پر دورۂ تفسیر بھی کروایا تھا جس کی وجہ سے مدرسہ میں خاصی شہرت ہوئی تھی۔ اس لیے علامہ
Flag Counter