حضرت مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ سے قرآن پاک اور کتبِ حدیث پڑھ چکے تھے بلکہ کئی بار ان علوم کا اِعادہ بھی کر چکے تھے کہ ان کےہم وطن حضرت مولانا عبد القریر مومن پوری[1]۔کا خط آیا کہ علامہ انورشاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ بیمار رہتے ہیں اور ان کی حالت چراغِ سحر کی سی ہے۔اس لیے جلد از جلد اس چشمۂ فیض سے فیض یاب ہو جائیں ایسا نہ ہو کہ عمر بھر کفِ افسوس مَلتے رہیں۔چنانچہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شیخ الوانی رحمۃ اللہ علیہ سے اپنے ارادے کا اظہار کیا تو مولانا نے خوشی کا اظہار کیا اور فرمایا:
’’اللہ راضی تھیوی ضرور ونج۔شاہ صاحب تے علم دَا بَلدا ہُویا چَراغ ہَین۔اُوہ تے نِرا علم ہین۔‘‘[2]
چنانچہ وہ اپنے شیخ کا ایک سفارتی خط لے کر علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس دیوبند حاضر ہوئے۔جہاں علالت کے باعث وہ مقیم تھے۔علامہ رحمۃ اللہ علیہ نےخط پڑھ کر فرمایا:کہ میں تو بیمار ہوں پڑھا نہیں سکتا‘آپ فی الحال دار العلوم میں داخلہ لے لیں‘ اگر صحت یاب ہو گیا تو آپ کو ڈابھیل لے جاؤں گا۔چنانچھ آپ نے دار العلوم دیوبند میں داخلہ کے لیے رجوع کیا۔ حضرت مولانارسول خان رحمۃ اللہ علیہ [3]نے امتحان لیا اور لکھا:
’’اگرچہ داخلے کا وقت گزر چکا ہے‘تاہم طالب علم کی ذہانت کو مد نظر رکھتے ہوئے
داخلہ دیا جاتا ہے۔‘‘[4]
مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے دار العلوم دیوبند میں شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے درسِ حدیث میں شرکت کی۔[5]
کچھ عرصہ بعد علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ صحت یاب ہوئے تو ان کے ہمراہ مدرسہ اسلامیہ ڈابھیل چلے گئے جہاں علامہ کشمیری
|