Maktaba Wahhabi

62 - 263
پھر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ باوجودیکہ حضرت مولانا نصیر الدین غور غشتوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا قاضی نور محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا عبد الرؤف صاحب رحمۃ اللہ علیہ بوچھال کلاں والے بھی شاگر د تھے مگر ان سب نے مولانا غلام اللہ ہی کو اپنے شیخ کا علمی جانشین تسلیم کیا اس لیےکہ شیخ نے مولانا کو اپنی فکر کا نمائندہ سمجھ کر ان کی تربیت کی تھی جیسا کہ حضرت مولانا عبد الرؤف کے اس بیان سے تصدیق ہوتی ہے: ’’میں شیخ القرآن سے عمر میں بھی بڑا ہوں اور ان سے بہت پہلے حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچا اور ربع صدی سے زیادہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ہی کے پاس رہا۔مگر جس زمانے میں شیخ القرآن رحمۃ اللہ علیہ حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں پڑھتے تھے۔حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی توجہ کا مرکزانہیں کی ذات ہوتی اور سب لوگ بخوبی سمجھتے تھے کہ درس اور سبق تو صرف شیخ القرآن کو پڑھایا جا رہا ہے اور ہم لوگوں کی حیثیت صرف سامع کی ہے اور اس لیے شیخ القرآن رحمۃ اللہ علیہ کا احترام کرتا ہوں کہ حضرت صاحب جیسے ولی اللہ کی توجہ کا مرکز تھے۔‘‘([1]) اس زمانے میں علمی اور دینی حلقوں میں علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کا آفتابِ علم نصف النہار پر تھا اور انہیں علم حدیث میں امیر المؤمنین مانا جاتا تھا۔عرب وعجم میں ان کے علمی تبحر اور وسعتِ مطالعہ کی دھوم تھی۔مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ اگرچہ عمر میں ان سے بڑے تھے مگر علامہ انوری رحمۃ اللہ علیہ کے قدر دان تھے چنانچہ اپنے شاگردوں کو ہدایت کرتے تھے کہ علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ سے حدیث پڑھیں۔ مولانا سید احمد رضا بجنوری۔([2])لکھتے ہیں: ’’حضرت الشیخ المعظم علامہ محدث ومفسر مولانا حسین علی نقشبندی جو کہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کےتلمیذ حدیث اور حضرت خواجہ محمد عثمان موسٰی زئی شریف کے اجل خلفاء میں سے تھے۔اکثرفرمایا کرتےتھےکہ شاہ صاحب بہت بڑےمحدث ہیں اور اپنے تلامذہ کوکتبِ حدیث ختم کرانےکے بعد ہدایت فرماتے کہ اگر فنِ حدیث میں بصیرت حاصل کرنےکی آرزوہے تو حضرت شاہصاحب کے پاس جاؤ۔([3]) حضرت مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ کے مجالس میں علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے علمی کمالات کا بار بار تذکرہ سن کر مولانا غلام اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں ان کے پاس حاضر ہو کر حدیث پڑھنے کا شوق اور جذبہ جوان ہوتا رہا۔ادھر وہ
Flag Counter