الرؤف صاحب(بوچھال کلاں)کو ہو گیاانہوں نے ہمیں سمجھایا اور حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے بھی بات کی کہ حضرت یہ نوجوان آپ سے قرآن ضرور پڑھیں گے مگر چونکہ نوجوان ہیں ضد میں آگئے ہیں۔آپ انہیں ایک سبق بخاری شریف کا پڑھا دیں میں ذمہ لیتا ہوں‘وہ آپ سے پورا قرآن پاک پڑھیں گے۔یوں ہمارا ایک قسم کا معاہدہ ہوگیا۔حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیں بخاری شریف کا ایک سبق پڑھا دیا اس کے بعد ہمیں قرآن پاک پڑھنا تھا مگر حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے قربان!وہ تدریس کے دیوانے تھے اگلے روز بخاری شریف لے کر ہمارےکمرے میں آگئے۔’’اللہ راضی ہونے اٹھو وت بخاری سہی۔‘‘اس طرح حضرت نے ہمیں قرآن بھی پڑھایا اور بخاری شریف بھ۔اب میں سوچتا ہوں کہ حضرت اس طرح مجھ سے قرآن کے آئینے میں حدیث کو سمجھنے کی استعداد پیدا کرنا چاہتے تھے‘بہر حال یہ حضرت مولانا عبدالرؤف رحمۃ اللہ علیہ صاحب کا مجھ پر احسان ہے جسے میں تمام عمر یاد رکھوں گا۔‘‘
مولانا ضیاء القاسمی‘شیخ القرآن رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو میرے واپس جانے کی خبر ہوئی تو مجھے بلا کر میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لےلیا اور ہاتھ کو دبا کر فرمایا’’اللہ راضی تھیوی واپس نہ جا قرآن پڑھ فائدہ تھیسی۔‘‘حضرت صاحب نے ہاتھ اس طرح دبایا کہ میرے قلب وجگر میں ایک بجلی سی دوڑ گئی اور میں نےحضرت صاحب سے عرض کیا کہ میں ان شاء اللہ قرآن حکیم پڑھ کر واپس جاؤں گا۔اس کے بعد میرا دل ایسا لگا جیسے میں اپنے گھر ہوں۔‘‘[1]
مولانا غلام خان نے حضرت مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ سے قرآن حکیم کے معارف وانوار کچھ اس طرح سمیٹے اور قرآنی مضامین کو کچھ اس انہماک واستغراق کے ساتھ سمجھا کہ خود شیخ نے انہیں’’شیخ القرآن‘‘کے لقب سے نوازا اوراپنےشیخ کا اس قدر اعتماد حاصل کیا کہ وہ اکثر فرمایاکرتے تھے:
’’غلام خان میرا شیر ہے۔یہ میرے بعد میرے کام کو آگے بڑھائے گا‘کوئی دوسرا کے نہ کرےمگرغلام خان پر مجھے اعتماد ہے۔[2] میرے تلامذہ اور مریدین میں سے قرآن کریم کی خدمت بصورتِ اشاعت صحیحہ ان شاء اللہ مولوی غلام خان سب سے زیادہ کریں گے۔‘‘[3]
چنانچہ آپ نے حضرت مولانا حسین علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے درسی افادات کو باقاعدہ جمع کیا جو’’بلغۃ الحیران فی ربط آیات الفرقان‘‘کے نام سے شائع ہوئے اسی کی تشریح وتسہیل کے لیے ’’جواہر القرآن‘‘ترتیب دی اور تقریباً نصف صدیث حسینی طرز پر دورۂ تفسیر پڑھایا۔
|