مولانا رحمۃ اللہ علیہ مجددی سلسلۂ طریقت کے عظیم شیخ حضرت مولانا حسین علی واں بھچروی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد اور ان کے خلیفہ مجاز تھے۔ وہ اپنے شاگردوں کو ہدایت کرتے کہ وہ واں بھچراں جاکرمولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ سے قرآن پاک کاترجمہ وتفسیر پڑھیں۔چنانچہ اپنے جلیل القدر استاذ کی ہدایت پر مولانا غلام اللہ بھی واں بھچراں(ضلع میاں والی)حاضر ہوئے۔
نوجوان طالب علم’’مولوی غلام خان‘‘اپنے استاذ حضرت مولاناغلام رسول انّہی کی ہدایت پر واں بھچراں آئے تھے اور سمجھتے تھے کہ قرآنِ پاک تو وہ انّہی والے بابا جی سے پڑھ آئے تھے اور اب اُنہیں اُن سے حدیث پڑھنی ہے۔مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی یہی درخواست کی مگر انہوں نے حدیث پڑھانے کی بجائے قرآن مجید پڑھنے پر اصرار کیا۔
’’مولوی غلام خان‘‘نے درسِ قرآن میں شرکت تو کر لی مگر علم حدیث کے حصول کا شوق غالب تھا۔ایک دوبار حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے درخواست بھی کی کہ حضرت!میں بخاری شریف پڑھنے کے لیے آیا ہوں مگر حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے التفات نہ فرمایا۔ اس بات کا تذکرہ مولانا عبدالرؤف([1])بوچھال کلاں سے کیا کہ میں تو بخاری پڑھنے آیا تھا مگر حضرت پڑھاتے نہیں ہیں‘ میں سوچتا ہوں کہ کہیں اور چلا جاؤں۔مولانا عبد الرؤف صاحب نےچند دن رُکنے کا مشورہ دیا کہ میں حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے بات کروں گا۔یہ چند دن کارکنا قیامت ڈھا گیا اور ’’دریہ‘‘کے غیر معروف نمبر دار ملک فیروز خان کے غیر معروف بیٹے’’غلام خان‘‘کی قسمت بدل گئی حتٰی کہ وہ تاریخ اسلام کا پہلا’’شیخ القرآن‘‘ کہلایا۔چوہدری فضل الٰہی تاجپوری(دینہ)جو شیخ القرآن کے معتمد دوست اور ساتھی ہیں۔شیخ ہی کی زبان سے یہ احوال اس طرح بیان کرتے ہیں:-
’’ہمارے‘‘ انّہی والے‘‘ استاذ حضرت مولانا حسین علی واں بھچراں والوں کا بہت تذکرہ کرتے رہتے تھے اور اپنے درس میں بھی طالب علموں کو ہدایت کرتے رہتے تھے کہ جب بھی موقع ملے حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ضرور جاکرپڑھیں۔میں اور میرا ایک ساتھی جب انّہی والے استاذوں سے رُخصت ہونے لگے تو ہمیں بطورِخاص ہدایت فرمائی۔اب ہمارا حال یہ تھا کہ ہم نے ’’انّہی‘‘ میں رہ کر حدیث بھی پڑھی اور قرآن پاک کی تفسیر بھی پڑھ لی تھی۔اب ہم دروۂ حدیث پڑھنا چاہتے تھے‘خاص طور سے’’بخاری شریف۔‘‘انّہی والے بزرگوں نے حضرت صاحب کے احترام کا نقش دل میں بٹھا ہی رکھا تھا۔ جب ہم حاضر ہوئے تو حضرت رحمۃ اللہ علیہ کےسامنے اپنا مدّعا بیان کیا کہ ہم بخاری شریف پڑھنے حاضر ہوئے ہیں۔ اس پر حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:نہیں میں تمہیں قرآن پڑھاؤں گا۔ہم نے عرض کی کہ حضرت!ہم قرآن پاک کی تفسیر انّہی والے استادوں سے پڑھ چکے ہیں اور اب حدیث شریف پڑھنے حاضر ہوئے ہیں۔ ہم نے سوچا کہ اگر بخاری شریف نہیں پڑھاتے تو ہم یہاں سے کہیں اور چلے جائیں گے اور بخاری شریف ہی پڑھیں گے۔اس بات کا علم حضرت مولانا عبد
|