Maktaba Wahhabi

52 - 263
ہوگیا۔ اب والدین کے لیے اور اسی طرح دوسرے ورثاء کے لیے وصیت جائز نہیں۔ان هذا الحکم کان فی بدء الاسلام ثم نسخ باية المیراث[1] حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے جن پانچ آیتوں کو منسوخ مانا ہے ان میں سے ایک یہ ہے لیکن بعض مفسرین کے نزدیک یہ آیت منسوخ ہے چنانچہ صاحب مدارک فرماتے ہیں کہ یہ آیت مشرک ماں باپ اور رشتہ داروں کے حق میں نازل ہوئی تھی اور حکم استحبابی ہے وجوب کے لیے نہیں ہے۔ وقیل کیر منسوخةلانهانزلت فی حق من لیس بوارث بسبب الکفر فشرعت الوصيةفیما بینهم قضاءلحق القرابةندباً[2] اور حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ اس کی توجیہ اس طرح فرماتے ہیں کہ یہاں وصیت والدین اور اقربین کے لیے نہیں بلکہ والدین اور اقربین کو ہے اور المعروف سے مراد حکم شرعی ہے اور مطلب یہ ہے کہ مرنے والے پر لازم ہے کہ وہ ماں باپ اور رشتہ داروں کو اس بات کی وصیت کرے کہ وہ اس کا ترکہ حکم شرعی کے مطابق تقسیم کریں۔([3]) 2۔ سورۃ البقرۃ کی آیت 240 کے بارے میں مولاناالوانی رحمہ اللہ کی رائے اس طرح ذکر کی گئی ہے: یعنی اگر وہ عدت واجبہ چار ماہ اور دس دن گذارنے کے بعد اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر چلی جائیں اور کسی مناسب جگہ عقد شرعی کرلیں تو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۔ اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے اور وہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔ اسے کوئی روک نہیں سکتا اور اس کا ہر حکم حکمت اور مصلحت کے ماتحت ہوتا ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ حکم اس وقت تھا جب میراث کے احکام ابھی نازل نہیں ہوئے تھے۔ اب یہ حکم آیت میراث سے منسوخ ہوچکا ہے کیونکہ اب خاوند کے ترکہ میں بیوہ کا حصہ مقرر ہوچکا ہے۔ اس لیے اب اس کے حق میں وصیت کا حکم باقی نہیں منسوخ کله عند جمهور العلماء[4] ثم ان اللّٰه نسخ هذین الحکمین اما الوصیةبالنفقةوالسکنی فلان القران دل علی ثبوت المیراث لهاوالسنةدلت علی انه لاوصية لوارث فصار مجموع القران والسنةناسخاً للوصیةللزوجةبالنفقة والسکنى فی الحول[5] حضرت شیخ رحمةا للہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اس وصیت کو استحباب پر محمول کیا جائے تو اس آیت کو منسوخ کہنے کی
Flag Counter