Maktaba Wahhabi

161 - 263
تعالیٰ نے ہماری طرف اپنا رسول بھیجا اور اس پر کتاب نازل فرمائی اور اس میں تمہارا ذکر بھی فرمایا کہ حضرت نوح(علیہ السلام)نے اپنی قوم کو اللہ کی توحید اور اس کے احکام کما حقہ پہنچائے تھے۔ پانچواں جواب: اگر بالفرض مان لیا جائے کہ تمام دلائل قطعیہ اور نصوص صریحہ کے خلاف یہاں لفظ شہید کے معنی حاضر وناظر ہی کے ہیں اور اس سے حضور(علیہ السلام)کا حاضر وناظر ہونا ثابت ہورہا ہے تو پھر صرف حضور(علیہ السلام)ہی کو نہیں بلکہ ساری امت محمدیہ کو حاضر وناظر ماننا پڑے گا کیونکہ اسی آیت میں امت محمدیہ کے لیے بھی لفظ شہداء استعمال کیا گیا ہے جو شہید کی جمع ہے۔ بلکہ اس صورت میں تو امت کا رتبہ حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے بھی بڑھ جائے گا۔ کیونکہ آپ تو صرف اپنی امت کے گواہ ہیں اور یہ امت پہلی تمام امتوں پر گواہ ہے۔ جیسا کہ لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ سے ظاہر ہے۔ چھٹا جواب: اگر شہید کے وہی معنی تسلیم کر لیے جائیں جو مبتدعین کہتے ہیں تو اس آیت اور قرآن مجید کی دوسری آیتوں کے درمیان ایسا اختلاف اور تضاد رونما ہوگا جس کا اٹھانا ممکن نہیں ہوگا۔ مثلا سورۃ بقرہ جس میں یہ آیت ہے مدینہ منورہ میں سب سے پہلے نازل ہوئی۔ اس کے بعد تقریبا، 16، 17 سورتیں اور نازل ہوئیں اور ان کے بعد سورۃ منافقون نازل ہوئی جس کا شان نزول صحیح روایتوں کے مطابق یہ ہے کہ غزوۂ تبوک کے سفر میں عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین نے موقع پا کر اپنے ساتھی منافقین سے کہا اس پیغمبر اور اس کے ساتھیوں نے ہمیں بہت تنگ کر رکھا ہے۔ ان کی وجہ سے ہمیں بہت تکلیف ہے۔ جب ہم مدینہ واپس پہنچیں گے تو(العیاذ باللہ)ان کمینوں کو شہر سے نکال دیں گے۔ عبداللہ کی یہ باتیں ایک کم سن صحابی حضرت زید بن ارقم نے سن لیں اور اپنے چچا سے کہہ دیں۔ انہوں نے سارا ماجر آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی خدمت میں عرض کردیا۔ تو آپ نے عبداللہ بن ابی کو بلا کر پوچھا تو اس نے قسمیں کھا کر حضور(علیہ السلام)کو یہ باور کرادیا کہ اس نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ چنانچہ آپ نے زید بن ارقم کو جھٹلادیا اور عبداللہ بن ابی کو سچا مان لیا۔ تو اس پر سورۃ منافقون نازل ہوئی جس سے آپ پر حقیقت حال منکشف ہوئی۔ اگر آپ حاضر وناظر ہوتے تو یقینا آپ کو عبداللہ بن ابی کی باتیں معلوم ہوجاتیں اور آپ زید بن ارقم کی تصدیق فرماتے اور عبداللہ کی قسموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس کو جھٹلا دیتے۔ اس لیے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شَھِیْد کے معنی یہاں حاضر وناظر کے نہیں ہیں جیسا کہ فریق مخالف کا زعم ہے۔ ایک شبہ: بعض مبتدعین یہاں حضرت شاہ عبدالعزیز قدس سرہ کی ایک عبارت پیش کر کے اس سے حضور(علیہ السلام)کا حاضر وناظر ہونا ثابت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ شاہ صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے " یعنی وباشد رسول شما برشما گواه زیرا که او مطلع است به نور نبوت به رتبه هر متدین بدین خود كه درکدام درجه از دین من رسیده الخ[1]"یعنی اور ہے رسول تمہارا تم پر گواہ کیونکہ آپ نور نبوت سے اپنے ہر امتی کا رتبہ جانتے ہیں کہ وہ
Flag Counter