Maktaba Wahhabi

159 - 263
علامہ موصوف لکھتے ہیں رقبء لئلا یبدل(جامع ص 100)۔ یعنی علماء یہود تورات کے محافظ تھے کہ اس میں تبدیلی نہ ہونے پائے[1]۔ اور حضرت مولانا شاہ عبدالقادر محدث دہلوی نے سورۃ مزمل میں شَاھِداً کا ترجمہ بتانے والا کیا ہے۔ اِنااَرْسَلْنَا اِلَیْکُم رَسُوْلاً شَاهِداً عَلَیْکُم(ہم نے بھیجا تمہاری طرف رسول بتانے والا تمہارا۔)لیکن شرک پسند اور بدعت نواز مولوی کہتے ہیں کہ یہاں شہید کے معنی گواہ کے ہیں اور گواہ صرف وہی ہوسکتا ہے جو موقع پر موجود ہو اور واقعہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کو امت پر گواہ فرمایا تو اس سے معلوم ہوا کہ آپ ہر امتی کے ساتھ موجود ہوتے ہیں اور اس کی تمام حرکات وسکنات کو دیکھتے ہیں ورنہ گواہ نہیں بن سکتے تو اس سے ثابت ہوا کہ آپ ہر جگہ اور ہر وقت حاضر وناظر ہیں۔ پہلا جواب: لفظ شہید یہاں بمعنی گواہ نہیں بلکہ جیسا کہ پہلے جامع البیان اور ترجمہ موضح قرآن کے حوالہ سے بیان کیا گیا ہے۔ یہاں شہید کے معنی بیان کرنے والے اور بتانے والے کے ہیں۔ اور سیاق وسباق کے اعتبار سے بھی یہی معنی موزوں ہیں۔ کیوں کہ اسی آیت میں صحابہ کرام کے لیے بھی لفظ شہداء استعمال کیا گیا ہے اور یہ لفظ بعینہ وہی مفہوم ادا کر رہا ہے۔ جو سورۃ آل عمران:113 ایک پوری آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ۔[2] دوسرا جواب: اگر مان لیا جائے کہ اس آیت میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے لیکن یہ دعویٰ غلط ہے کہ گواہ صرف وہی شخص بن سکتا ہے جو موقع پر موجود ہو اور واقعہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھے کیونکہ فقہائے حنفیہ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ گواہی کے لیے واقعہ کا آنکھوں سے مشاہدہ کرنا ضروری نہیں کیونکہ قرآن مجید میں وارد ہے۔ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ أَهْلِهَا إِنْ كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍاالایۃ۔[3]یہاں اس شخص کو شاہد(گواہ)فرمایا جس نے زلیخا کی دست اندازی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ نہیں کیا تھا بلکہ محض علامات کی بنا پر گواہی دی تو معلوم ہوا کہ گواہی کے لیے مشاہدہ ضروری نہیں اسی طرح اگر ایک شخص موقعہ پر موجود نہ ہو۔ لیکن واقعہ کی خبر اس تک کسی ایسے معتبر اور باوثوق ذریعہ سے پہنچ جائے جس سے اس کو اقعہ کی صداقت کا یقین ہوجائے تو اس کیلئے گواہی دینا جائز ہے۔ چنانچہ مصنف ہدایہ لکھتے ہیں:انما یجوز للشاهد ان یشهد بالاشتهار وذلک بالتواتر او اخبار من یثق به۔[4]
Flag Counter