عوام کو ان سے محبت تھی۔ بلکہ مشرکین مکہ بھی ان کا احترام کرتے تھے۔ اس لیے ان مولویوں اور پیروں کی اصلاح سے پوری قوم کی اصلاح ہوسکتی تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی اور اس میں جا بجا یہودیوں کو خطاب فرمایا۔ اور ان کی اصلاح کیلئے حکیمانہ نصیحت کے مختلف طریقے اختیار فرمائے کہیں نرمی سے سمجھایا ہے کہیں سختی سے کہیں وعدہ انعام کے ساتھ اور کہیں وعید انتقام کے ساتھ، کہیں تو ان پر اور ان کے آباء واجداد پر کئے گئے احسانات جتلا کر انہیں ایمان لانے کی ترغیب دی ہے اور کہیں ان کے غلط کار باپ دادوں کا برا انجام یاد دلا کر انہیں ڈرایا ہے تاکہ وہ ضدوعناد اور انکار حق سے باز آجائیں۔ کہیں ان کی شرارتوں اور خباثتوں کے ذکر کے ساتھ ساتھ اپنے بے پایاں عفودرگزر کا ذکر فرمایا ہے تاکہ ان کا جذبہ سپاس گزاری بیدار ہو اور ان میں غیرت وحیا کا کچھ احساس پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ چونکہ ناصح مہربان اور حکیم ہے اس لیے اس نے یہودیوں کے عوام وخواص کی اصلاح پندونصیحت کا ہر ممکن انداز اختیار فرمایا ہے تاکہ وہ کسی نہ کسی طرح راہ راستہ پر آجائیں۔ اور دعوت حق قبول کرلیں۔ اور اگر وہ ضدوانکار پر ڈٹے رہے تو حجت خداوندی ان پر قائم ہوجائے۔ پانچویں رکوع کی ابتداء یعنیيٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ الَّتِىْٓ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَاَوْفُوْا بِعَهْدِىْٓ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ[1] سے لے کر پندرھویں رکوع میں وَلَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلَاهُمْ یُنْصَرُوْنَ[2]تک بنی اسرائیل کی اصلاح کے عمومی پہلو کو مد نظر رکھا گیا ہے اور پھر وہاں سے مسئلہ رسالت ونبوت کا آغاز ہوتا ہے۔ اصلاح کے عمومی پہلو کے سلسلے میں تذکیر ورشاد کیلئے پانچ طریقے اختیار کئے گئے ہیں۔
(۱)۔ یہودیوں کے باپ دادوں پر کیے گئے انعامات کا ذکر۔ (۲)ان کے باپ دادوں کی خباثتوں کا ذکر۔ (۳)نزول قرآن کے وقت موجودہ بنی اسرائیل کی بداعمالیوں کا ذکر۔ (۴)ان کی بد اعمالیاں تو ایک طرف رہیں ان کے باپ دادا توحید بیان کرنے والے پیغمبروں کو قتل کرتے رہے اور ان کو جھٹلاتے رہے اس کا ذکر۔ (۵)ان کے آباء واجداد کا ذکر چھوڑو موجود ہ بنی اسرائیل کا یہ حال ہے کہ آخری پیغمبر جب آگیا تو یہ اس کو جھٹلانے لگے۔ حالانکہ اس کے آنے سے پہلے اس کی آمد کی خوشخبری دیا کرتے تھے، ان کی مخالفت کا ذکر۔[3]
شہداء شہید کی جمع ہے۔ جو شہادۃ سے ماخوذ ہے۔ جن کے معنی ہیں بیان کرنا اس لیے شہید اور اسی طرح شاہد کے معنی ہوں گے اللہ کی توحید بیان کرنے والا اور راہ حق بتانیوالا۔ جیسا کہ علامہ ابن صفی حنفی نے لکھا ہے:انا ارسلناک شاهدا اللّٰه بالوحدانیة[4]یعنی آپ کو ہم نے توحید بیان کرنے والا بنا کر بھیجا اسی طرح سورۃ مائدہ میں وَکَانُواْ عَلَيهِ شُهَدَاءَ کے تحت
|