پہنچاتے ہیں۔المہند ۱۵۷۔
اس عقیدے کی بنیاد اس بات پر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں بنفسہ زندہ ہیں۔یہ بدعتیوں کا عقیدہ ہے اہل سنّت کا نہیں۔سورۃ الزمر کی آیت ۳۰ اس عقیدے کو باطل کرتی ہے ﴿ انک میت و انھم میتون﴾ بے شک تو بھی مرتا ہے اور وہ بھی مرتے ہیں(ترجمہ محمود الحسن صاحب دیوبندی)۔اور آپ کی وفات پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا جو محمد ؐ کی عبادت کرتا ہے تو محمدؐ فوت ہوچکے ہیں(بخاری)۔آپ کی قبر کے پاس پڑھے ہوئے درود کو براہ راست آپ کا خودبخود سننا کسی حدیث سے ثابت نہیں اس بارے میں وارد تمام روایت واحادیث ضعیف و باطل ہیں۔اس مقام پر مؤلف المہند مستدرک حاکم کی ایک روایت پیش کی ہے اس میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔عیسیٰٰ علیہ السلام میری قبر پر آئیں گے اور مجھ پر سلام کہیں گے میں اس کے سلام کا جواب دونگا یہ حدیث منکر ہے اس کا ایک راوی عطاء مولی ام حبیبہ مجہول ہے۔میزان الاعتدال ج ۳ ص ۷۸ اس لئے امام حاکم اور حافظ ذہبی کا اس حدیث کو صحیح کہنا غلط ہے خاص طور پر اس لئے کہ ذہبی نے خود اس کے راوی کو مجہول کہا ہے۔
اور حدیث:من صلی عند قبری سمعتہ ومن صلی علی نائیا أبلغتہ۔رواہ البیہقی فی شعب الایمان ج ۴ ص ۲۱۴(جس نے میری قبر کے پاس درود پڑھا اس کو میں سنّتا ہوں اور جس نے دور سے پڑھا مجھ تک پہنچایاجاتا ہے)موضوع ہے اس کی سند میں محمد بن مروان السدی راوی ہے وہ جھوٹا ہے۔
اور اس حدیث کو ابوالشیخ نے کتاب الثواب میں روایت کیا ہے اس کی سند میں عبدالرحمن بن
|