رفتہ ہوا اور کسی خاص غرض سے عیسائی ہو کر یہاں سے چل دیا۔ ممکن ہے کہ اس کی دلی آرزو بر آئی ہو۔
’’اس زمانہ میں ’’الحق‘‘ نامی عیسائیوں کا ایک پرچہ نکلتا تھا، اس میں غیروں کی مدد سے مضامین بایں طور لکھنے شروع کیے کہ میں بڑا حاذق حکیم ہوں، میں بڑا فاضل ہوں، بڑا دولتمند وغیرہ وغیرہ کا ایک سلسلہ چند روز تک جاری رکھا اور اپنے خداوندان کے خوش کرنے کی تدبیر نکالی۔ مجھ کو معلوم ہوا تو میں نے اس کا جواب لکھ کر اڈیٹر ’’الحق‘‘ کو روانہ کیا۔ اڈیٹر صاحب نے دیکھا کہ اس مضمون سے تو سلطان کی سلطانی خاک میں مل جائے گی۔ تو اڈیٹر صاحب نے لکھا کہ ہم ذاتیات کی بحث میں پڑنا نہیں چاہتے۔
’’میں عیسائیوں کے ہتھکنڈوں سے واقف ہوں کہ نئے مرید کو مولوی، قاضی، سید، حکیم، پنڈت وغیرہ وغیرہ لکھ کر اس کی شان بڑھاتے ہیں، لیکن جب اُس کی قلعی کھول کر تصویر کا دوسرا رخ دکھایا جاتا ہے تو بغلیں جھانکتے ہیں۔ چنانچہ سلطان محمد کی بابت بھی ایسا ہی ہوا۔ میں نے مناسب نہ سمجھا کہ ایک معمولی طالب علم کے مضمون کو اہمیت دے کر دوسرے اخبارات میں شائع کرایا جائے۔
’’تین چار سال بعد بڑے دنوں کی تعطیل میں وہ اپنے (مصنوعی) باپ منصور مسیح کو ملنے آیا، جن کا قرض تھا ادا کیا۔ بعدہ واپس کانپور چلا گیا۔ عرصہ کے بعد معلوم ہوا کہ سلطان محمد مرتد سے مسلمان بن گیا۔ توحید کی تائید و ردّ تثلیث میں ایک رسالہ لکھا، جس کی ایک نقل ہمراہ خط کے روانہ کی اور خواہش کی کہ میں بمبئی آؤں۔ چونکہ میں جانتا تھا کہ مسلمانوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا میں نے اس کو کوئی جواب
|