Maktaba Wahhabi

67 - 411
ممکن ہے سلطان محمد کسی کونے میں بیٹھ کر تقریریں سنتا ہو لیکن کسی جلسہ میں نہ کوئی تقریر کی، نہ کسی عیسائی اور آریہ سے مباحثہ مناظرہ کیا، نہ کوئی تجویز پیش کی، چونکہ سیکڑوں بلکہ ہزارہا آدمیوں کا مجمع ہوتا تھا، اس میں انھوں نے محض شرکت کی ہو تو کی ہو، نہ ایسی مشہور و معروف ہستی تھی جس پر نظر پڑتی۔ اگر کوئی خاص بات اُن میں ہوتی تو مقامی اخبارات میں ذکر آتا، خاص کر انجمن کے ماہانہ پرچہ ’’البلاغ‘‘ میں ضرور ذکر آتا۔ ’’اب بھی میں ان کو چیلنج دیتا ہوں کہ کوئی تحریر ایسی پیش کریں کہ آپ بانی انجمن کب ہوئے؟ یا صدر انجمن کب ہوئے ہیں؟ دعوے سے کہتا ہوں کہ صدر اور نائب صدر تو کیا آپ ایک معمولی ممبر بھی نہ تھے۔ لعنۃ اﷲ علی الکاذبین! ’’اصل واقعہ یہ ہے کہ 1903ء میں جلسہ بند کر کے میں دورہ پر گیا تھا، جب واپس آیا تو معلوم ہوا کہ منارہ والی مسجد کا معمولی طالب علم عیسائی ہوگیا۔ تحقیق کرنے سے ثابت ہوا کہ سلطان محمد، منصور مسیح کا بیٹا بن کر بپتسمہ لے کر ہمیرپور پادری احمد شاہ کانپوری کے پاس چلا گیا۔ منارہ والی مسجد کے طلبا سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسجد کی روٹیوں کے لیے اکثر شکایت کیا کرتا تھا۔ کپڑے وغیرہ کی اس کو سخت تکلیف تھی۔ بعض میمنوں نے بلحاظ ہمدردی روپے قرض دیے تھے، بعض لوگ روپیوں کا تقاضا کرتے تھے جس کے سبب ہمیشہ پریشان رہتا تھا۔ منصور مسیح نہایت تجربہ کار اور چالاک مشنری تھا، اس نے اس کی ناداری اور غربت دیکھ کر ہمدردی کی۔ یہ اس کے مکان پر آنے جانے لگا اور اس نے اس کو ترغیب دی۔ یہ ناتجربہ کار اور شباب کا عالم۔ گِرجائیں کی آمد و رفت کا منظر دیکھ کر از خود
Flag Counter