تاکہ وہ غورو فکر کریں۔‘‘ اور اللہ عزوجل نے فرمایا: ﴿اَللّٰہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَاباً مُّتَشَابِہاً مَّثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُودُہُمْ﴾ (الزمر: 23) ’’ اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دھرائی ہوئی آیتوں کی ہے جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں۔‘‘ اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘‘بیشک لوگوں میں سے خوبصورت ترین قرا ت اس کی ہے جس کو قرا ت کرتے ہوئے دیکھو کہ اللہ سے ڈررہا ہے ‘‘[1] پس ایسے مقامات پہ ترتیل کرنے والے کو چاہیے کہ قرات میں ایسے ترنم کے لہجوں سے بچے جن میں حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق تشبیہ ہو اور بالخصوص عجمیوں کے لہجوں سے دور رہے، کیونکہ قرآن عربی ہے لہذا اسے عربوں کے ترنم و لہجہ کے مطابق پڑھنا چاہیے جیسے مصر کے قراء یا حجاز کے قراء کے لہجات ہیں اس کو اس بات پہ بھی حریص ہونا چاہیے کہ وہ شیطانی گلوکاروں کے رقص و واہیات اور باہم تفریحات و بے حیائی والی کیفیات سے دور رہے ، مدود کو کھینچے ، حروف کو لمبا کرنے یا حذف کرنے اور احکام وصفات میں خلل پیدا کرنے سے اجتناب کرے جو کلام اللہ کے وقار و عظمت کے منافی ہے۔ اور یہود و نصاری کے چرچوں اور گرجوں وغیرہ کی ترتیل میں واقع ہونے سے بھی بچے ان کی مشابہت جب مطلق طور پہ حرام ہے تو ایسے مقام پر اس کا کیا حکم ہو گا؟ |