حمیدی کہتے ہیں میں نے سفیان بن عیینہ سے پوچھا میں نے اپنے ہاں بعض لوگوں کو ایک کا م کر تے دیکھا ہے،قاری رمضان کے مہینے میں ختم کے وقت تکبیر پڑھتا ہے ؟ توانہوں نے کہامیں نے صدقہ بن عبداللہ بن کثیر[1] کو ستر سال سے زائد امامت کرواتے ہوئے سنا ہے وہ جب بھی قرآن ختم کرتے تکبیر کہتے۔ [2] حمیدی سے ہی روایت ہے ہمیں محمدبن عمر بن عیسیٰ نے خبر دی ان کو ان کے باپ نے خبر دی کہ انہوں نے لوگوں کو رمضان میں امامت کروائی توانہیں ابن جریج نے اس بات کا حکم دیا کہ وہ ’’ والضحیٰ‘‘ سے ختم قرا ٓن تک تکبیر کہیں ۔[3] حمیدی سے روایت ہے میں نے عمر بن عیسیٰ کو سنا انہیں نے رمضان میں ہمیں نماز پڑھائی تو ’’والضحیٰ‘‘ سے ختم تک تکبیر ات کہیں لوگوں نے اس پہ انکار کیا تو انہوں نے کہامجھے ابن جریج نے حکم دیا ہے ہم نے ابن جر یج سے پوچھا توانہوں نے کہا ہاں میں نے ان کو حکم دیا ہے۔[4] قنبل سے روایت ہے کہ مجھے ابن المقری [5] نے بیان کیا ہے کہ وہ ابن شہید حجبی کے پیچھے رمضان میں نما زپڑھتے تو وہ مقام ابراہیم کے پا س یہی تکبیرات کہتے ۔ پس یہ سنت تکبیر اہل مکہ کے ہاں مشہورو معروف ہے وہ اس کو اپنے شیوخ سے نقل کرتے آرہے ہیں صرف بزّی پہ اعتماد نہیں کرتے [6] چونکہ یہ ان کے ہا ں ثابت و مشہور ہے لہٰذاروایت فردکی متابعت کی ضرورت ہی نہیں ۔ |