الْکِتَابَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَّہُ عِوَجًا، قَیِمّاً﴾ (الکہف: 1، 2) میں روایت ہے وہ کہتے ہیں’’اس نے کتاب کو نازل کیا ، ہر طرح سے ٹھیک ٹھاک رکھا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں چھوڑی۔‘‘[1] نحاس کہتے ہیں ، لازم ہے کہ (عوجاً) پہ وقف نہ کیا جائے کیونکہ (قیماً) ماقبل کی طرف لوٹنے والا ہے۔ اس عبارت کا مفہوم یہ ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم معنی کے مکمل ہونے کا پورا خیال رکھتے تھے۔ معنی مکمل ہونے پر ہی رکوع کرتے تھے، اسی میں(وقف کافی) داخل ہے۔[2] عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں ذکر ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے قرآن مجید سننے کا اظہار کیا تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سورۃ النساء کی تلاوت کی جب وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پہ پہنچے ﴿فَکَیْفَ إِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَابِکَ عَلیٰ ہٰؤُلاَء ِشَہِیْدًا﴾ (النساء: 41) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا’’ بس اب کافی ہے‘‘[3] اور یہ وقف کافی میں سے ہے کیونکہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا فرمان ﴿یَوْمَئِذٍ یَوَّدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَعَصَوُ الرَّسُولَ لَوْتُسَوّٰیْ بِہُم الأَرْضَ وَلاَ یَکْتَمُوْنَ اللّٰہَ حَدِیْثًا﴾ اس کے متعلق ہے ۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ وہ قرآن مجید کی جو دس دس آیات سیکھتے تھے اور ایک روایت میں پانچ پانچ کا ذکر ہے ۔[4] وہ تعلّم کے طور پر تھا جب کہ اس کا تعلق تلاوت سے ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایک آیت پر وقف کرنا مطلق طور پر نہیں بلکہ فعلِ صحابہ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ معنی کے مکمل ہونے کے ساتھ مقید ہے جیسا کہ رؤوس آیات کا حال ہے لیکن جب دو آیتوں کے درمیان بہت گہرا تعلق ہو تو قاری کو وصل ووقف میں اختیار |