Maktaba Wahhabi

120 - 194
جارو مجرور فعل (تتفکرون ) کے متعلق ہیں جن کے بغیر معنی صحیح نہ ہو گا۔ لیکن جب اختتام آیت پہ وقف کرنے سے معنی خراب ہوتا ہو تو وہاں وقف کرنا ،وقف قبیح ہوگاجیسے ﴿فَوَیْلُ لِّلْمُصَلِّیْنَ ۔ اَلَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَ﴾ (الماعون: 4 تا 5) پس للمصلین پہ وقف معنی کو فاسد کر دیتا ہے کیونکہ نمازیوں کے لیے مطلق طور پہ وعید کا ذکر ہو گا تو یہ ایسے ہی ہے جیسے آیت عذاب کو آیت رحمت کے ساتھ ملا کے ختم کر دیا جائے جبکہ ثابت ہے کہ اسلاف وقف و اختتام میں اس چیز کا بہت خیال رکھتے تھے۔[1] میمون بن مہران سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: میں ان لوگوں کی قراءت سے کانپ اُٹھتا ہوں جو اس سے کم آیات نہ پڑھنے کو اپنے اوپر لازم سمجھتے ہیں جبکہ وہ قراءتو قصص کی تلاوت کرتے وہ قصہ مختصر ہو یا طویل جبکہ آج ان کی قراءت کا یہ حال ہے کہ وہ ﴿وَاِذَا قَیْلَ لَہُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ۔ قَالُوْا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ﴾ (البقرۃ: 11 تا 12) کی تلاوت کرتے ہیں اور پھر دوسری رکعت میں اُٹھ کر ﴿اَلَااِنَّہُمْ ہُمُ الْمُفْسِدُوْنَ﴾[2] سے پڑھتے ہیں۔قراء سے ان کی مراد صحابہ کرام ہیں کیونکہ میمون بن مہران کبار تابعین میں سے ہیں۔[3] عامر شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب تو ’’کُلُّ مَنْ عَلَیہََا فَانٍ‘‘ کی قراءت کرے تو مت رک یہاں تک کہ ﴿وَیَبْقیٰ وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاکْرَامْ﴾ (الرحمن: 26 تا 27) پڑھ لے۔[4] قتادہ[5] سے اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ أَنْزَلَ عَلیٰ عَبْدِہِ
Flag Counter