مغالطے کی اصل وجہ
ان دلائل کے باوجود کچھ لوگوں کو اس وجہ سے مغالطہ ہوا ہے کہ وہ موجودہ تفسیری کتب اور موجودہ طرز تفسیر کی روشنی میں مرفوع حدیث میں یہ تلاش کرنا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آیت کی تلاوت فرما رہے ہوں، اس کے بعد ایک ایک لفظ کی لغوی تشریح بیان فرما رہے ہوں، پھر اس کا اجمالی مفہوم اور پھر اس کی تفصیلات پیش فرما رہے ہوں تو یہ ان کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر شمار ہو گی۔
ظاہر ہے کہ نہ تو یہ اس وقت کا تقاضا تھا اور نہ ہی صحابہ کرام کو عرب ہونے کی بنا پر اس طرز تفسیر کی ضرورت تھی، نہ ایسے ہوا اور نہ ہی ایسے احادیث ہم تک پہنچیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلوب تفسیر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اپنا اسلوب تھا، جس کے مطابق آپ نے اپنی پوری حیات طیبہ میں قرآن مجید کی علمی و عملی تفسیر فرمائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلوب تفسیر کا خلاصہ درج ذیل نکات کی روشنی میں پیش کیا جا سکتا ہے:
1) بہت قلیل احادیث ایسی ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی مفہوم بیان فرما کر اس کے متعلقہ آیت تلاوت فرمائی یا کوئی آیت تلاوت فرما کر اس کی تفسیر پیش فرمائی۔ چنانچہ درج ذیل واقعات سے اس کی وضاحت پیش خدمت ہے:
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کسی کو اللہ تعالیٰ نے دولت دی اور اس نے اس کی زکوٰۃ نہ نکالی، اس کی دولت گنجے سانپ کی شکل میں اس کے سامنے لائی جائے گی، اس کے دو نقطے ہوں گے اور روز قیامت اس مالدار کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا، سانپ اس کی دونوں باچھوں سے پکڑ کر کہے گا: ((أَنَا مَالُكَ أَنَا كَنْزُكَ)) [1]پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی۔
﴿وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللّٰه مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُم ۖ بَلْ
|