اُدھر حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے لیے ایک ایک دن قیامت تھا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ اپنے ایمان کے متعلق فکر مند ہوگئے۔ وہ مسلمانوں سے بات کرتے لیکن مسلمان اُن سے کتراتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے توجواب نہ ملتا۔ وہ کہتے ہیں: ’’آزمائش نے طوالت اختیار کی تو میں اپنے عم زاد ابوقتادہ کے ہاں گیا جن سے مجھے بے پناہ محبت تھی۔ وہ اپنے باغ میں تھے۔ میں باغ کی دیوار پھاند کر اندر گیا اور اُنھیں سلام کیا۔ اللہ کی قسم! اُنھوں نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا۔ میں نے پوچھا: ’’ابوقتادہ! تمھیں اللہ کا واسطہ! تم جانتے ہو نا کہ مجھے اللہ اور اُس کے رسول سے محبت ہے؟ ‘‘ وہ خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے دوبارہ پوچھا: ’’ابوقتادہ! جانتے ہو نا کہ مجھے اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہے؟‘‘ وہ اِس مرتبہ بھی چپ رہے۔ میں نے تیسری بار پوچھا: ’’ابوقتادہ! میں تمھیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں۔ جانتے ہو نا کہ مجھے اللہ اور اُس کے رسول سے محبت ہے؟‘‘ انھوں نے بالآخر جواب دیا: ’’اللہ اور اُس کے رسول کو زیادہ معلوم ہے۔‘‘ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے اپنے محبوب ترین بھائی اورعم زاد کا یہ جواب سنا تو برداشت نہ کر پائے اور پھوٹ پھوٹ کر رو دیے۔ پھر وہاں سے لوٹے اور گھر چلے گئے۔ خالی گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا تھا۔ تسلی دینے کے لیے نہ بیوی اور نہ محبت بگھارنے کو کوئی قریبی۔ آج پچاسویں رات تھی۔ رات کے تیسرے پہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تینوں اصحاب کی قبولیتِ توبہ کے متعلق وحی نازل ہوئی۔ آپ نے فجر کی نماز پڑھائی تو لوگوں میں اعلان کردیا کہ اللہ تعالیٰ نے تینوں اصحاب کی توبہ قبول فرمالی ہے۔ یہ اعلان سنتے ہی لوگ خوشخبری دینے کو دوڑ پڑے۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے گھر کی |