Maktaba Wahhabi

131 - 131
زید نے کہا: ’’ہاں۔ میں نے ان صاحب کا جو حسن سلوک دیکھا ہے اس کے باعث میں انھیں چھوڑ کے کسی اور کے ساتھ نہیں جا سکتا۔‘‘ [1] زید کے والد حارثہ کو کیا معلوم تھا کہ زید کے لیے وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی نہیں تھی۔ وہ تو شرک کی غلامی سے آزادی تھی۔ وہ بتوں سے آزادی تھی۔ وہ توہمات اور خرافات سے آزادی تھی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو انسانیت کے نجات دہندہ تھے، زید ان کا سایۂ عاطفت چھوڑ کر کہیں اور کیسے چلے جاتے۔ زید کے اس فیصلے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انھیں ساتھ لیے حطیم کعبہ میں آئے اور یہ اعلان فرمایا: ’’حاضرین! گواہ رہیے کہ زید میرا بیٹا ہے۔ یہ میرا وارث ہوگا اور میں اس کا وارث ہوں گا۔‘‘ [2] چنانچہ اسی روز سے زید بن حارثہ کو زید بن محمد کہا جانے لگا۔ پھر ایک روز جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحیِ الٰہی نازل ہوئی: ﴿ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ،خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ،اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ،الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ،عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ﴾ ’’ اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے پیدا کیا۔ اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ پڑھیے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے۔ وہ ذات جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا۔‘‘ [3] بعد ازاں جب آپ کو دعوت و تبلیغ کا حکم دیا گیا اور آپ نے ارشادِ الٰہی کی تعمیل
Flag Counter