انھیں کھانا کھلاتے ہیں۔ ہم اپنے بیٹے کے سلسلے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔ہم پر احسان کیجیے اور اس کا فدیہ لینے کے سلسلے میں ہم سے اچھا سلوک کیجیے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ آپ کس کی بات کررہے ہیں؟ وہ بولے: زید بن حارث کی۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اچھا، میں اس سلسلے میں ایک اوربات کہتا ہوں۔‘‘ انھوں نے عرض کیا کہ وہ کیا؟ فرمایا: ’’میں زید کو بلاتا ہوں اوراسے اختیار دے دیتا ہوں۔ اگر وہ آپ کے ہمراہ جانا چاہے تو آپ اسے بخوشی لے جائیے۔ لیکن اگر وہ میرے ہاں رہنا چاہے تو واللہ! میں اس کے مقابلے میں کسی اور شے کو ترجیح نہیں دوں گا۔‘‘ وہ بولے: ’’یہ تو بڑے انصاف کی بات ہے۔‘‘ چنانچہ آپ نے زید رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے فرمایا:’’ ان دونوں کو پہچانتے ہو؟‘‘ ’’جی ہاں!‘‘ زید نے جواب دیا۔ فرمایا: ’’کون ہیں یہ؟‘‘ ’’یہ میرے والد اور یہ میرے چچا ہیں۔‘‘ زید نے ان دونوں کی طرف اشارہ کرکے کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید سے فرمایا: ’’میرے برتاؤ سے تم واقف ہو۔ میں تمھیں اختیار دیتا ہوں کہ میرے ہاں رہنا چاہو تو میرے ہاں رہو۔ ان کے ہمراہ جانا چاہو تو ان کے ہمراہ چلے جاؤ۔‘‘ زید نے عرض کیا: ’’میں آپ کے مقابلے میں کسی اور کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ آپ میرے لیے میرے والد اور چچا کی جگہ ہیں۔ میں آپ کے ساتھ ہی رہوں گا۔‘‘ زید کے والد اور چچا نے کہا: ’’زید! افسوس ہے کہ تم آزادی کے مقابلے میں غلامی کو ترجیح دیتے ہو؟ تم اپنے والد، چچا اور اہل خانہ کے ساتھ نہیں رہناچاہتے ہو؟‘‘ |