Maktaba Wahhabi

112 - 131
اِس پر نجاشی نے زمین پر سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا: ’’جو کچھ تم نے کہا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس تنکے کے برابر بھی اس سے بڑھ کر نہیں تھے۔‘‘ نجاشی کی اِس بات پر بطریقوں نے ناراضگی سے ’’ہونہہ‘‘ کی آواز لگائی۔ نجاشی نے ان سے کہا کہ اگرچہ تم لوگ ’’ہونہہ‘‘ کہو (درست وہی ہے جو میں نے کہا۔) نجاشی نے مسلمانوں سے کہا: ’’جاؤ۔ تم لوگ میرے قلمرو میں امن و امان سے ہو۔ جو تمھیں گالی دے گا اُس پر تاوان لگایا جائے گا۔ مجھے گوارا نہیں کہ تمھارے کسی آدمی کو ایذا دوں اور اس کے بدلے مجھے سونے کا پہاڑ مل جائے۔‘‘ اس نے اپنے حاشیہ نشینوں سے مخاطب ہو کر کہا: ’’ان دونوں (عمرو بن عاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ) کو ان کے تحفے واپس کردو۔ مجھے ان کی کچھ ضرورت نہیں۔ خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ نے جب مجھے میرا ملک واپس کیا تھا تو مجھ سے کوئی رشوت نہیں لی تھی کہ میں اُس کی راہ میں رشوت لوں۔ نیز اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں لوگوں کی بات قبول نہیں کی تھی کہ میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں لوگوں کی بات مانوں۔‘‘ یوں قریش مکہ کے سفارتی وفد میں شامل دونوں افراد اپنے ہدیے تحفے لیے نہایت بے آبرو ہو کر واپس چلے گئے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اس تمام واقعے کی راویہ ہیں ۔ وہ بتاتی ہیں کہ پھر ہم نجاشی کے ہاں نہایت اچھے ملک میں اچھے پڑوسی کے زیر سایہ مقیم رہے۔[1]
Flag Counter