Maktaba Wahhabi

53 - 222
﴿ وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللّٰهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ، إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا﴾ ’’اور لوگوں کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ مرتے وقت اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑ جائیں تو انھیں ان کے بارے میں کتنی فکر ہوگی، چنانچہ انھیں اللہ سے ڈرنا چاہیے اور سیدھی بات کہنی چاہیے۔بے شک جو لوگ یتیموں کا مال ظلم کے ساتھ کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں اور وہ جلد دہکتی آگ میں داخل ہوں گے۔‘‘[1] قرآن نے دوسروں کا مال کھانے کو ﴿أَکْلٌ﴾’’کھانے‘‘ سے کیوں تعبیر کیا ہے؟ اس لیے کہ مال کی بھی اسی طرح اشتہا ہوتی ہے جس طرح کھانے پینے کی اشتہا ہوتی ہے۔ انسان کتنی ہی اقسام کے کھانوں کی تمنا رکھتا ہے، نیز کتنے ہی پھل اور گوشت وغیرہ اپنے پیٹ میں انڈیل لیتا ہے؟ پھر کیا بنتا ہے؟ ان عمدہ اور لذیذ کھانوں کا کیا انجام ہوتا ہے؟ اس سے یقیناً متعفن شے ہی بنتی ہے جس سے انسان کراہت کرتا اور دور بھاگتا ہے۔ اسی طرح ایک انسان غیر کے مال پر قبضہ کرکے اسے گندی اور بدبودار شے ہی میں تبدیل کرتا ہے۔ کوئی بھی سلیم الفطرت انسان اس کو برداشت نہیں کرسکتا اور کوئی عقل مند اسے قبول نہیں کرسکتا۔ ہم پوچھتے ہیں کہ جب معاملہ ایسے ہی ہے تو پھر انسان دوسروں کا مال ہتھیانے کی کیونکر جرأت کرتا ہے؟
Flag Counter