Maktaba Wahhabi

180 - 222
کو اپنے برابر کا سمجھ کر یہ فیصلہ کرایا تھا جبکہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی طرف سے مجھے کسی دھوکے کا ڈر نہیں تھا۔ خارجی تو علی رضی اللہ عنہ کے انتہائی مخالف ہوچکے تھے، لہٰذا انھوں نے ایک اور اعتراض یہ داغا کہ آپ نے ان منصفین سے اپنے حق کے بارے میں فیصلہ کیوں کروایا، حالانکہ وہ آپ ہی کا حق تھا؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اس کے بارے میں بھی میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے رہنمائی موجود ہے۔ بنو قریظہ کی بدعہدی کے بعد ان کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے فیصلہ کروایا تھا۔ اگر آپ چاہتے تو ایسا نہ کرتے۔ اسی طرح میں نے بھی ایک قاضی مقرر کیا ہے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاضی نے تو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا تھا مگر میرا قاضی دھوکے میں آگیا اور اس کا نتیجہ تم سب دیکھ رہے ہو۔ علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کوئی اور اعتراض ہے؟ وہ بظاہر خاموش ہوگئے مگر یہ خاموشی رضامندی کی علامت نہیں تھی بلکہ بعض خارجیوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنالیا تھا۔ حرقوص بن زہیر نامی خارجی مجمع سے باہر آیا اور کہنے لگا: اے ابوطالب کے بیٹے! اللہ کی قسم! آپ کو قتل کرکے ہمیں اللہ کی رضا اور دار آخرت مطلوب ہے۔ علی رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا: تیری مثال اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مصداق ہے: ﴿ قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا، الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ﴾ ’’کیا ہم تمھیں اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارہ پانے والے بتائیں؟
Flag Counter