پیچھے جو باتیں گزری ہیں کہ بعض بیویاں دن کا اکثر حصہ گھر میں اکیلی رہتی ہیں، یا زوجین کی عمروں میں فرق والی بات یا پھر عورت کا زینت والی چیزوں کے پیچھے دوڑنا جن سے وہ اپنے آپ کو مزین کرسکیں تو ان تمام معاملات میں اسلام نے خاص احتیاط سے کام لیا ہے۔ خاندان کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے بھی اہم قوانین وضع کیے ہیں۔ آدمی روزی روٹی کی خاطر چاہے جتنا دور دراز کا سفر کرے مگر وہ اپنے گھر اور اپنی بیوی سے غافل نہ ہو۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ دشمن سے برسرپیکار فوجیوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ کوئی مجاہد فوجی گھر بار سے دور دشمن کے علاقوں میں تین ماہ سے زیادہ نہ ٹھہرے۔ وہ اپنی صابرہ، شاکرہ اور مومنہ بیوی کے پاس واپس آئے، کچھ مدت اس کے ساتھ گزارے اور پھر میدانِ معرکہ میں لوٹ جایا کرے۔ نیز اسلام نے خاندان کو اخلاقیات اور دین کے مضبوط حصار میں پناہ مہیا کرتے ہوئے یہ شرط عائد کی ہے کہ دونوں میاں بیوی آزاد ہوں (غلام نہ ہوں)، قد کاٹھ بھی مناسب ہو اور عمر میں بھی یکسانیت ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے اپنی شادی ایک شادی شدہ (بیوہ) عورت سے کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ((ہَلَّا تَزَوَّجْتَ بِکْرًا، تُلَاعِبُہَا وَتُلَاعِبُکَ؟)) ’’جابر! تو نے کنواری عورت سے شادی کیوں نہ کی؟ تو اس سے کھیل کر لطف اندوز ہوتا، وہ تجھ سے کھیل کر لطف اندوز ہوتی۔‘‘ [1] اس حدیث کو مد نظر رکھتے ہوئے عام قانون ایسا ہی بننا چاہیے کہ شادی شدہ خاوند |