اے کاش! میں اس وقت تک زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو مکہ سے نکال دے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا یہ لوگ مجھے میرے شہر سے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا: جی ہاں! آپ کے پیغام جیسا جو بھی پیغام لایا ہے، اس سے دشمنی ہی کی گئی ہے۔ اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو ضرور آپ کی بھر پور مدد کروں گا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد ورقہ فوت ہوگئے اور وحی بھی کچھ مدت کے لیے رک گئی۔ [1] دوسرا شخص عبید اللہ بن جحش گومگو کی کیفیت میں رہا حتی کہ جب اسلام کی دعوت پھیلی تو مسلمان ہوگیا۔ پھر مسلمانوں کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی مگر وہاں جاکر عیسائی ہوگیا اور اسی حالت میں موت آگئی۔ [2] تیسرا شخص عثمان بن حویرث تھا۔ وہ روم کے بادشاہ قیصر کے پاس چلا گیا۔ وہاں اس نے نصرانیت اختیار کرلی اور بادشاہ کے ہاں مقام و مرتبہ پایا۔ چوتھے دوست زید بن عمرو بن نفیل تھے۔ یہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے چچا اور عشرہ مبشرہ میں سے مشہور صحابی حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے والد ہیں۔ انھوں نے زمانہ جاہلیت ہی میں بتوں سے کنارہ کشی کی ہوئی تھی۔ بتوں کے نام پر ذبح شدہ جانور کا گوشت نہیں کھاتے تھے۔ قریش غیر اللہ کے نام پر ذبح کرتے تو انھیں اکثر اس حرکت سے روکا کرتے تھے اور کہتے تھے: اے قریش کی جماعت! بھلا غور کرو اور بتاؤ کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا، اسی نے زمین سے چارا اگایا، اسی نے بکری پیدا کی جو اس کے اگائے ہوئے چارے کو کھاتی ہے۔ مگر تم اسے غیر اللہ کے نام پر ذبح کردیتے ہو؟ تمھیں عقل و شعور نہیں ہے؟! [3] |