نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو سکھائے تھے۔اور جن کی قراء ت کی اجازت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور امت محمدیہ کو مرحمت فرمائی تھی۔‘‘ [1] لیکن علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ وہ قراء ات جو اس فن کے ماہرین کے ہاں صحیح ثابت ہیں اور رسم عثمانی کے مطابق ہیں ، آیا ان کا ماخذ سبعۃ احرف میں سے ایک حرف ہے یا ایک سے زاید حروف ہیں۔ اس بارے میں دو اقوال ہیں: پہلا قول: امام ابن جریر طبری ، امام ابن عبد البر اور ابن تیمیہ رحمہم اللہ کا موقف یہ ہے کہ قراء ات عشرہ کا اختلاف صرف ایک حرف یعنی لغت قریش کے اندر ہے ، جس پر قرآن نازل ہوا تھا۔ اور یہی وہ حرف تھا جس کے مطابق مصاحفِ عثمانیہ کو مدون کرکے مختلف علاقوں میں بھجوایا گیا تھا۔چنانچہ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’آج امت مسلمہ کی قراء ۃ صرف اسی ایک حرف کے مطابق ہے جو مسلمانوں کے شفیق اور خیر خواہ امام ِوقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کے لئے اختیارکرتے ہوئے باقی حروف کو ختم کر دیا تھا۔‘‘ [2] اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس قول کو جمہور ائمہ سلف کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’جمہور علمائے سلف کا موقف یہ ہے کہ یہ تمام قراء ات سات حروف میں سے صرف ایک حرف پر مشتمل ہیں ، بلکہ وہ کہتے ہیں کہ مصحف عثمان رضی اللہ عنہ بھی ایک حرف کے مطابق مدون کی گیاتھا۔ اور یہی وہ حرف تھا جو جبریل علیہ السلام کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عرضہ اخیرہ (آخری دور )میں باقی رکھا گیا تھا۔نیز مشہور احادیث و آثار سے اسی موقف کی تائید ہوتی ہے۔‘‘[3] |